اس مرتبہ ماہ رمضان پہلے جیسا کیوں نہیں ہو گا؟

ہم رمضان المبارک کے مہینے کو جس روایتی و مذہبی جوش و جذبے سے ہمیشہ سے مناتے چلے آئے ہیں اس برس ویسا نہیں ہوگا جسکی بنیادی وجہ کرونا وائرس کا پھیلاو اور اسکے باعث ہونے والا لاک ڈاؤن ہے۔
ماہِ صیام کو نیکیوں کا موسمِ بہار بھی کہاجاتا ہےجس کے دوران مسلمان اپنے دامن کو خیر اور فلاح سے بھرتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ ہم سب مسلمانوں کےلیے یہ ایک بابرکت اور مقدس مہینہ ہے۔ عبادات کے اس مہینے میں ہم اللہ کی رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ ہمیں سَحر و اِفطار کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔
ماہ رمضان میں ہر شخص کے معمولات میں تبدیلی آ جاتی ہے مساجد میں نمازیوں کی تعداد پہلے سے بڑھ جاتی ہے، دفاتر کے اوقات کار کم ہوجاتے ہیں، خاص طور پر رمضان کے آخری عشرے میں بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے، افطار اور سح پارٹیاں ہوتی ہیں، نائٹ کرکٹ اور بہت کچھ۔ تاہم اس سال یہ سب نہیں ہوسکے گا، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے جہاں دیگر معمولات زندگی کو محدود کردیا ہے وہیں اس کا براہ راست اثر رمضان کے معمولات پر بھی پڑے گا۔
جو لوگ کرونا میں مبتلا نہیں بھی ہوئے ہیں ان کے اندر بھی اس وائرس کا خوف بری طرح سما چکا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک بشمول سعودی عرب میں باجماعت نمازوں کے اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت نے باجماعت نمازوں کی مشروط اجازت دینے کا رسک لیا ہے تاہم اس کے باوجود ماضی میں جس طرح مساجد کی رونقوں میں اضافہ ہو جاتا تھا اس برس اس میں واضح کمی دیکھنے میں آئے گی اور دنیا بھر کے بیشرر مسلمان اپنے گھروں پر محصور رہ کر نماز ادا کرنے پر مجبور ہوں گے-
اسی طرح رمضان کا ایک حسن افطار پارٹیوں کا اہتمام بھی تھا جو کہ ایک جانب تو باعث برکت و ثواب ہوتا اور دوسری طرف اپنے دوستوں اور چاہنے والوں سے ملنے کا ایک بہانہ بھی تھا- مگر اس رمضان میں اس قسم کی کسی تقریب کا امکان نظر نہیں آرہا کیوں کہ لاک ڈاون کے سبب دنیا بھر میں ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ایسی کسی دعوت کا اہتمام نہیں ہوسکے گا اور مسلمان اپنے گھر کی محدود فضا میں افطار کرنے پر مجبور ہوں گے-
دنیا بھر اور خصوصا اسلامی ممالک میں روزہ داروں کی سہولت کے لیے ماہ رمضان میں دفتر کام کرنے کے دورانیہ میں واضح طور پر کمی کر دی جاتی تھی تاکہ لوگ اس ماہ مبارک کی برکتوں سے زیادہ سے زيادہ فیضیاب ہو سکیں- مگر اس رمضان میں اکثریت لاک ڈاؤن کے سبب گھروں پر محصور ہے۔ جو لوگ آن لائن کام کر رہے ہیں ان کے اوقات دفتری اوقات کی طرح نہیں ہیں اس وجہ سے جلدی چھٹی کی خوشی اس سال حاصل نہیں ہو پائے گا-
رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ لوگوں کی عید کی تیاریوں کے باعث بازاروں کی گہما گہمی میں اضافہ ہو جاتا تھا مگر اس برس عوام کے معاشی حالات کرونا لاک ڈاؤن کے سبب کسفی ابتر ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بازاروں کے بند ہونے کے سبب ماضی کی طرح کی رونق بھی نہیں ہو گی چنانچہ اس مرتبہ عید کی تیاریاں بھی ماضی کی طرح دھوم دھڑکے سے نہیں ہو پائے گی۔
دن بھر روزہ رکھ کر افطار ڈنر کے لیے ہوٹلنگ اب کرنا اس برس ممکن نہیں ہو سکے گا اور روزہ داروں کو صرف گھر کے پکے پکوانوں پر ہی انحصار کرنا پڑے گا کیوں کہ لاک ڈاون کے سبب تمام ہوٹل بند ہیں اور جو کھکے ہیں وہ بھی صرف اور صرف گھر لے جا کر کھانے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
تاہم اس برس رمضان کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی ہیں، مثلا یہ کہ اب جب کہ ہم سب لوگ کام چھوڑ کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں تو ان حالات میں ہمیں عبادات کے لیے کافی وقت مل سکتا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم گھر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کے علاوہ مختلف تفاسیر کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زيادہ سے زیادہ اذکار و عبادات کو اپنی روز مرہ کی روٹین کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
عام طور پر ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ لوگ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی زکوٰۃ و خیرات کا اہتمام کرتے ہیں مگر اس سال یہ جذبہ لوگوں میں رمضان سے پہلے ہی بڑھتا ہوا دیکھا گیا ہے اور لوگ غریب اور نادار افراد کو راشن وغیرہ کی فراہمی میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ رمضان کے مہینے میں یہ جذبہ مزید بڑھ جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button