حکومت اور PTI مذاکرات میں ایک دوسرے کو کیا دے سکتے ہیں؟
حکومت اور تحریک انصاف کے مابین تعطل کا شکار ہونے والے مذاکراتی عمل کی 16 جنوری سے ممکنہ بحالی سے پہلے یہ سوال زبان زد عام ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کو کیا کچھ دے سکتے ہیں۔ بظاہر تحریک انصاف حکومت کو کچھ بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، دوسری جانب حکومت بھی تحریک انصاف کے بنیادی مطالبے یعنی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے واضح کر چکی ہے کہ خان کے کیسز عدالتوں میں چلائے رہے ہیں اور انکے اندر رہنے یا باہر آنے کا فیصلہ عدلیہ نے کرنا یے۔ ایسے میں دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کے نتیجے میں کوئی بڑا بریک تھرو ہوتا نظر نہیں آتا۔
سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ یاد ریے حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین 16 جنوری کو مذاکرات کا تیسرا دور ہونا ہے، جس میں امید کی جا رہی ہے کہ عمران خان کی جماعت اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرے گی۔ اس سے قبل بات چیت کے دو دور ہو چکے ہیں جن میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی۔
پی ٹی آئی اس بات چیت میں دو اہم مطالبات یعنی 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے قیام اور پی ٹی آئی کے گرفتار کارکنوں کی رہائی پر زور دے رہی ہے، اس کا کہنا ہے کہ اگر 31 جنوری تک عدالتی کمیشن نہ بنا تو مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
تاہم حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد عمران خان کی رہائی کے لیے بات چیت کا راستہ ہموار کرنا ہے، تاہم تحریک انصاف والے گھما پھرا کر باتیں کر رہے ہیں اور بظاہر یہ موقف اپنا رکھا ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران کی رہائی کا مطالبہ زیر بحث نہیں آئے گا۔
دراصل تحریک انصاف کی قیادت فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتی تھی اور اس کی جانب سے بار بات اس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن دوسری جانب فوجی ترجمان نے ہر مرتبہ مذاکرات کی خواہش رد کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ فوج غیر سیاسی ادارہ ہے اور اگر کسی جماعت نے مذاکرات کرنے ہیں تو منتخب حکومت کے ساتھ کرے۔ بالاخر عمران خان کو حکومت کے ساتھ ہی مذاکرات پر اکتفا کرنا پڑا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح فوج مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے۔
کچھ روز قبل سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے ایک انٹرویو میں ’اصل فیصلہ سازوں‘ کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ عرفان صدیقی نے اسد قیصر کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ پیش نہیں کیا۔
عرفان صدیقی کے بقول ’انہوں نے ایک ٹی وی شو میں یہ مطالبہ ضرور رکھا لیکن جس فوج کی وہ بات کرتے ہیں، اس کے دروازے پر بار بار وہ دستک دیتے رہے ہیں، آوازیں دیتے رہے ہیں وہ دروازہ نہیں کھلا۔‘ عرفان صدیقی کے مطابق: ’انہوں نے صاف کہہ دیا کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر بات کریں، لہازا یہ ہمارے پاس آ گئے۔ جس فریق سے وہ بات کرنا چاہ رہے تھے اگر اس نے بات چیت سے انکار کر دیا تو ہم کیسے انہیں پکڑ کر انکے سامنے بٹھا دیں، یہ ہمارا کام نہیں یے۔
عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی اپنا اختیار رکھتی ہے۔ جب پی ٹی آئی ہمارے پاس آئی تو ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جن کے پاس ہم جا رہے ہیں ان کے پاس اختیار ہے یا نہیں۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر ان کی نظر میں ہم بے اختیار ہیں تو انہوں نے مزاکراتی کمیٹی کیوں بنائی؟ سپیکر یا ہمارے پاس کیوں آئے؟ وزیر اعظم سے کمیٹی کی تشکیل پر کیوں بات کی؟ بااختیار ہی سمجھیں جب تک ان پر ہماری بے اختیاری واضح نہیں ہو جاتی۔‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کی مرضی کا جج اور جرنیل بھی مزاکرات میں شامل کر دیں۔ اس وقت تو وہ حکومت سے اور حکومت ان سے بات کر رہی ہے۔ اس سے پہلے وزیر دفاع اور ن لیگ کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے ’اس ماحول میں مذاکرات کے ممکن ہونے پر‘ سوال اٹھایا تھا۔
عرفان صدیقی نے خواجہ آصف کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے، ان کے علاوہ ہمارے جماعت میں اور بھی لوگ ہیں جو ان مذاکرات کو بے ثمر سمجھتے ہیں۔
عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ اسی طرح پی ٹی آئی میں بھی کئی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کس چکر میں پڑ گئے ہیں، یہ نہ کریں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے عدالتی کمیشن بنانے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے متعلق عرفان صدیقی نے کہا کہ اگر 31 جنوری تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بھی مذاکرات کے لیے ہمیں آگے جانا چاہیے۔ انکا کہنا تھا کہ 31 جنوری کی ڈیڈ لائن تحریک انصاف کے لیے ضروری ہے، ہمارے نزدیک مذاکرات کا باثمر یا نیتجہ خیز ہونا 31 جنوری سے زیادہ بڑا ہدف ہے۔‘ انہوں نے کہا ’31 جنوری کو مذاکراتی کمیٹی تحلیل نہیں کریں گے۔ ہماری کمیٹی موجود رہے گی اور مذاکرات کا تقاضہ یہ ہے کہ آگے جایا جائے، ہم تیار ہیں لیکن اس کا انحصار ان پر ہے کہ وہ 31 جنوری سے آگے جاتے ہیں یا نہیں۔‘
عرفان صدیقی کے مطابق اتحادی جماعتیں مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہیں، پی ٹی آئی جن تحریری مطالبات کی بات کر رہی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ 23 دسمبر کو پہلے اجلاس میں ہی طے ہو گیا تھا کہ حکومت کو تحریری مطالبات پیش کیے جائیں گے۔ پی ٹی آئی نے خود بھی باہر جا کر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہم تحریری طور پر مطالبات لے آئیں گے لیکن اب 22 روز گزر چکے ہیں، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی بھی مطالبات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔‘
یاد رہے کہ سینیٹر عرفان اس سے قبل خبردار کر چکے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش نہ کیے تو مذاکرات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تحریری مطالبات کو عمران خان کی اجازت ملنے سے مشروط کیا تھا، جس کے بعد پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی 12 جنوری کو اڈیالہ جیل میں عمران سے ملاقات بھی ہو گئی، لیکن پی ٹی آئی کے مطالبات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 16 جنوری کو حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کے تیسرے راؤنڈ میں حکومت کو کون سے مطالبات پیش کیے جاتے ہیں اور کیا حکومت انہیں تسلیم کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوگی یا نہیں؟