اپنے افسروں کیلئے ہزار گاڑیاں خریدنے پرFBR تنقید کی زد میں

خالی خزانے اور ملکی معیشت کی زبوں حالی کو بنیاد بناکر عوام پر آئے روز ٹیکسز کا بوجھ ڈالنے والا ایف بی آر 6 ارب روپے مالیت کی ایک ہزار 10نئی چمچماتی گاڑیاں خریدنے کے فیصلے پر تنقید کی زد میں ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے لگژری گاڑیوں کی خریداری پر جہاں عوامی و سیاسی حلقے حکومت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہیں دوسری جانب ایف بی آر کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے کبی بھی ٹیکس محصولات کا ٹارگٹ پورا نہیں کیا گیا ناقص ترین کارکردگی کے باوجود ایف بی آر افسران کیلئے ایک ہزار سے زائد نئی گاڑیوں کی خریدری عوامی پیسے کا ضیاع ہے۔
خیال رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے افسران کیلئے 1 ہزار 10 نئی ہونڈا سٹی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔نئی گاڑیوں کی خریداری کو ’ایف بی آر‘ کے ٹرانسفارمیشن پلان کا حصّہ قرار دیا جا رہا ہے۔جس کی حکومت نے منظوری بھی دے دی ہے۔ ایف بی آر 1 ہزار 10 گاڑیوں کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے کی پیشگی ادائیگی کرے گا جبکہ باقی رقم اس وقت ادا کی جائے گی جب 500 گاڑیوں کی ترسیل مکمل ہو جائے گی۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق نئی گاڑیوں میں کئی اضافی خصوصیات بھی شامل کرنے کی فرمائش کی گئی ہے جس میں نیویگیشن سسٹم کے ساتھ ریورس کیمرا، اعلیٰ معیار کا اندرونی ڈیزائن، 20,000 کلومیٹر یا 12 ماہ تک مفت مینٹیننس، اور چار سال یا 100,000 کلومیٹر کی توسیعی وارنٹی شامل ہیں۔ایف بی آر نے ہر گاڑی میں ٹریکنگ سسٹم نصب کرنے کی بھی درخواست کی ہے، جس میں ایک سال کی سروس چارج اور سبسکرپشن کی تجدید کے لیے رعایتی پیشکش شامل ہوگی۔ ایف بی آر کو اس ماہ 75 گاڑیاں ملیں گی، اس کے بعد فروری میں 200، مارچ میں 225، اپریل میں 250 اور آخرکار مئی 2025 میں باقی 260 گاڑیاں ڈیلیور کی جائیں گی۔
ایف بی آر کے اس فیصلے پر صارفین کی جانب سے خوب تنقید کی جا رہی ہے، وہاج سراج نامی صارف نے لکھا کہ تقریباً 6 ارب روپے سے زائد ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی ایف بی آر کے افسران کے لیے 1,010 ہونڈا سٹی گاڑیاں خریدنے پر خرچ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ ٹیکس دہندہ ہیں، تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ آپ کا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے کہا کہ ایف بی آر 1010 ہنڈا سٹی گاڑیاں خریدنے جا رہا ہے جبکہ ایف بی آر نے اس مالی سال کے پہلے 6 مہینوں میں 400 ارب روپے کا ریونیو شارٹ فال رپورٹ کیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے، ایف بی آر ان گاڑیوں کو ٹیکس دہندگان کی رقم سے خریدے گا۔ یہ کتنی افسوسناک صورتحال ہے خاص طور پر جب ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں۔عمر ایوب نے مسلم لیگ ن کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی پی ایم ایل این حکومت عوام کی مشکلات سے بالکل غافل ہے۔
صحافی اویس یوسفزئی لکھتے ہیں کہ ایف بی آر آخر اربوں روپے مالیت کی 1 ہزار نئی گاڑیوں کا کرے گا کیا؟ کیا پہلے ملازمین کے پاس گاڑیاں نہیں جو اب ایک ساتھ انھیں نئی گاڑیاں دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے یا کیا ادارے میں ہزار نئی بھرتیاں ہوئی ہیں جن کے لیے ایف بی آر کو مونوگرام والی گاڑیاں درکار ہیں۔
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ قرضوں میں جکڑے ملک کی ایف بی آر غریب لوگوں اور تنخواہ داروں کے ٹیکس کاٹ کر 6 ارب سے 1 ہزار ہنڈا سٹی گاڑیاں لے رہے ہیں اس ملک میں مراعات یافتہ کے لیے غریب کا خون چوسا جاتا ہے۔
ایک صارف کا کہنا تھا کہ یہ بہت شرمناک ہے اور اس فیصلے کی مذمت ہونی چاہیے۔ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے کو بہت نقصان ہو رہا ہے جبکہ ٹیکس جمع کرنے والے ان پیسوں کو عیش و عشرت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے ایف بی آر کے ساتھ کام کا تجربہ رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ افسران کو گاڑیاں خرید کر دینا کوئی غلط اقدام نہیں ہے تاہم اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ان اقدامات سے متعلقہ افسران کی کارکردگی بھی بہتر ہو۔اُنہوں نےمزید بتایا کہ ایف بی آر میں 20 سے 25 ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں، ان میں سے کم از کم 1 ہزار افسران کے لیے ان گاڑیوں کی ضرورت تو ہو گی۔اشفاق تولہ کے مطابق ایف بی آر کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات ضرور اٹھانے چاہیے لیکن متعلقہ محکمے یا افسران کو دی جانے والی سہولیات کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے، اس سے ادارے کی کارکردگی بہتر ہو گی۔