9 مئی، حکومت اور PTI مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ کیوں ہے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار  عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملے ہیں جن کے منصوبہ سازوں کو فوجی قیادت کسی صورت بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔

بی بی سی کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے دور میں بھی تحریک انصاف کی قیادت مفاہمت کی جانب بڑھنے کی بجائے مسلسل اپنے حریفوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے۔ان کا کہنا یے کہ تحریک انصاف جیسی بڑی جماعت بارہا فوج سے براہ راست بات چیت کو ترجیح دے چکی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ ’موقع اور دستور‘ کے مطابق حکومت کو یہ ٹاسک سونپ دیتی ہے۔بدقسمتی سے اس پورے قضیے کے درمیان نو مئی کا معاملہ آ کھڑا ہوا ہے جو بہرحال فوج بھولنے کو تیار نہیں کیونکہ ایسا اندوہناک واقعہ بھولنے کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ روایت پڑ جانے کا خدشہ موجود ہے۔

عاصمہ شیرازی کے بقول دوسری جانب عمران 9 مئی کے واقعات پر فوج سے معافی مانگنے کا عذر کیسے ڈھونڈیں کہ اتنا بڑا ’یوٹرن‘ اُن کی سیاست کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ یوں مذاکرات کی ہانڈی میں لو اور دو کا مصالحہس تاحال موجود نہیں۔ ماضی میں ہونے والے این آر او کے وقت سوشل میڈیا موجود نہیں تھا مگر اب اس کا بھوت ہر جگہ ناچ رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ’قیدی‘ اس قید سے چاہیں بھی تو رہائی نہیں پا سکتے۔

پس پردہ مذاکرات ’اعتماد سازی‘ کرتے ہیں توتحریک انصاف کے یوٹیوبرز سر عام بھانت بھانت کی جھوٹی سچی مہم چلاتے ہیں۔ سانچ پر آنچ کا تڑکا لگا کر ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ اعتماد سازی راکھ ہو جاتی ہے۔ ایک گھر کے سیاسی عامل دوسرے گھر کے سیاسی موکلوں پر بھاری آجاتے ہیں اور یوں ساری گیم دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر عملی طور پر تحریک انصاف میں کوئی سیاست کو سمجھ رہا ہے تو وہ بُشریٰ بی بی ہیں تاہم اُن کے ہاتھ وہ یوٹیوبرز نہیں آ رہے جو اس وقت کہیں اور سے قابو ہو رہے ہیں اور ٹمپریچر بڑھاتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے پارٹی چلانی ہے یا پارٹی نے سوشل میڈیا کو چلانا ہے۔ فیصلہ یہ بھی کرنا ہوگا کہ خان صاحب کو پارٹی کے اندر سیاست کرنی ہے یا قومی سیاست میں حصہ لینا ہے۔ یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ جماعت کے دو متحارب گروپوں کے ذریعے دباؤ بڑھانا ہے یا مفاہمت کا رستہ اختیار کرنا ہے۔ فیصلہ یہ بھی کرنا ہو گا کہ یوتھیوں نے بیرونی سہاروں کی طرف دیکھنا ہے یا اندرونی عوامی پذیرائی کو طاقت بنانا ہے۔ یاد رہے عالمی قوتیں محض راستے کے پتھر ہٹا سکتی ہیں، لیکن  چلنا آپ نے خود ہے اور اس کے لیے راستہ بھی اپنا ہی بنانا ہو گا۔

Back to top button