آئین اور قانون کا بھاشن دینے والے اطہر من اللہ کا ماضی کیا ہے؟

آج آئین اور قانون کی پاسداری اور فوج کی سیاسی مداخلت کی مخالفت کا بھاشن دینے والے جسٹس اطہر من اللہ آئین شکن جنرل مشرف کے دور میں وزیر قانون رہ چکے ہیں۔ وہ مشرف کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ بھی بن گئے تھے جس کے بعد انہوں اپنے محبوب جرنیل کے جعلی ریفرنڈم کی ڈٹ کر حمایت کی تھی۔ موصوف نے بطور وزیر قانون رات گیارہ بجے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ریفرنڈم صاف اور شفاف طریقے سے منعقد ہوا اور عوام کی بڑی اکثریت نے جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دیا۔
اپنے عمرانڈو نظریات کی وجہ سے کالا بھونڈ قرار دیے جانے والے اطہر من اللہ کی طوطا چشمی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جب مشرف کا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے پنگا پڑا اور ان کا اقتدار ڈگمگایا تو موصوف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھی بن گئے، یوں انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔ ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج بن جانے کے بعد اطہر من اللہ کو عمراندار ججز کے ٹولے کا رکن شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھر کی خواتین عمران خان کی فین ہیں۔ آج کل موصوف جج صاحب مختلف فورمز پر تقاریر کرتے ہوئے اپنے ساتھی ججوں کو انصاف کا جھنڈا بلند رکھنے اور اصولوں کی خاطر بغاوت کا درس دے رہے ہیں لیکن خود ایسا نہیں کرنا چاہتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سٹی کورٹ میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی ایک حالیہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1971 میں اگر فوج آزادی اظہار رائے پر پابندی نہ لگاتی تو پاکستان دولخت نہ ہوتا، جب کہ ملک میں بنیادی حقوق بے معنی ہو چکے ہیں اور موجودہ ہائبرڈ نظام کا مطلب آمریت ہے، انہوں نے کہا کہ ان حالات میں آگے بڑھنے کے لیے آئین پر عمل کرنا ہو گا۔ تاہم یہ بھاشن دیتے ہوئے موصوف بھول گئے کہ وہ خود ماضی میں دو مرتبہ آئین توڑنے والے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کھڑے تھے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کے خطاب پر رد عمل جاری کرتے ہوئے کہا کہ اطہر من اللہ کو یہ بیان دینے سے قبل یاد رکھنا چاہیے تھا کہ وہ ایک وردی والے جرنیل کی صدارت میں وزیر قانون تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاستدان اگر کوئی غلطی کرتے ہیں تو یاد رکھتے ہیں کہ لوگ کل کو ہمیں یہ غلطی یاد دلائیں گے، لیکن فوجی آمروں کا ساتھ دے کر جج کے عہدے پر پہنچنے والے اطہر من اللہ جیسے لوگ خود اپنا ماضی بھول جاتے ہیں۔
پاکستان بہتر بنانے کے لیے ہائبرڈ نظام کا خاتمہ کیوں ضروری ہے؟
یاد رہے کہ جب جنرل مشرف کا اقتدار ختم ہو گیا اور اس پر آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کے لیے سپیشل بنچ بنایا گیا تو اس کے خلاف حکم امتناعی بھی جسٹس اطہر من اللہ نے ہی جاری کیا تھا۔ یعنی موصوف ایک مرتبہ پھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہو چکے تھے اور جنرل مشرف کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعدازاں جسٹس اطہر من اللہ کا حکم امتناعی سپریم کورٹ سے خارج ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بہت ہی قریب تھے اور ان کے اشاروں پر چلا کرتے تھے۔ اسی لیے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے لیے جسٹس شوکت صدیقی کو راستے سے ہٹایا گیا اور انہیں بطور جج معزول کر دیا گیا ورنہ سینیارٹی کے اصول کے تحت وہ اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنتے۔ یہ بھی نظام عدل کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے جو کہ جسٹس اطہر من اللہ کو ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنوانے کی خاطر لکھا گیا۔
