صدر زرداری کے دورہ چین سے امریکہ کو کیا پیغام دیا گیا ہے ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے فورا بعد پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی جانب سے دورہ چین نے پاکستانی فیصلہ سازوں کی پرو چائنہ اپروچ اور اس سوچ کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان امریکہ کی خوشنودی کے لیے چین سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔
اسلام آباد میں باخبر سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی صدر کے دورہ چین سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اسلام آباد وائٹ ہاؤس میں ہونے والی تبدیلی کے باوجود اپنی پرو چائنہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گا۔ صدر آصف زرداری نے دورہ چین کے دوران چینی کے صدر شی کو ایک بار پھر یہ یقین دہانی کرائی کہ ان کے ملک میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں پر دہشت گرد حملوں کی تحقیقات اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ دینا پاکستانی حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سی پیک کے کچھ منصوبوں پر ان دہشت گرد حملوں کی وجہ سے پہلے ہی کام بند ہو چکا ہے چونکہ چینی انجینیئرز اور ورکرز کو واپس بلا لیا گیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر بیجنگ جانے والے صدرِ صدر آصف علی زرداری کی چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا کیوں کہ بطور سٹریٹجک پارٹنر اور میزبان ملک یہ پاکستان کی ذمے داری ہے۔ بیان میں فریقین نے ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ پاکستانی قیادت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ چینی اہل کاروں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کی تحقیقات اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس وقت ہزاروں چینی شہری پاکستان میں جاری درجنوں مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی صحیح تعداد کے بارے میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔
جن منصوبوں پر چینی شہری کام کررہے ہیں ان میں سے بہت سےسی پیک کے تحت آتے ہیں جب کہ بعض منصوبوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم پاکستان میں تشدد کے حالیہ بڑھتے واقعات کے علاوہ گزشتہ برس کئی چینی باشندوں کی ہلاکت پر چین نے سیکیورٹی کی صورتِ حال اور اس کے نتیجے میں اپنے شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
گزشتہ سال دہشت گردی کے حملوں میں کم از کم پانچ چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ چینی شہری پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ یاد رہے کہ سال 2013 سے 2025 تک پاکستان میں چینی شہریوں پر 17 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں درجن سے زائد ہلاکتیں اور 37 چینی شہری زخمی ہوئے ہیں۔ یہ حملے پاکستان کی جانب سے سکیورٹی اقدامات سخت تر کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود جاری ہیں۔ لہٰذا صدر زرداری کے اس دورے کا مقصد چینی قیادت کے سیکیورٹی خدشات دور کرنا تھا تاکہ سی پیک کے رکے ہوئے منصوبوں پر کام دوبارہ شروع ہو سکے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیکیورٹی صورتِ حال کافی خراب ہے اور اسے بہتر بنانا پاکستان کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی انٹیلی جینس بہتر بنانے کے ساتھ سیکیورٹی امور پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے چینی شہریوں کے لیے مزید فول پروف سیکیورٹی انتطامات تو کیے ہیں لیکن چینی قیادت کے خدشات بھی برقرار ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی قیادت کا یہ عزم ہے کہ دہشت گرد حملے دونوں ملکوں کی دوستی پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ ان حملوں کا مقصد چین اور پاکستان کے تعلقات کے علاوہ سی پیک منصوبے کو خراب کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تو چینی شہریوں پر حملے ہوتے ہیں لیکن افغانستان میں چینی شہریوں کے ساتھ کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا حالانکہ وہاں پر افغان طالبان کی حکومت ہے۔
بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں نے چین کی حکومت کو سی پیک کے منصوبوں سے اپنے شہری دور رکھنے کی دھمکیاں دے رکھی ہیں۔
چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی ملوث ہیں۔ ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ ان دونوں تنظیموں نے فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف اتحاد کر رکھا ہے۔ حکومتِ پاکستان متعدد بار دعویٰ کرچکی ہے کہ افغانستان اور بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں اورٹی ٹی پی کو مدد فراہم کرتے ہیں جس کی یہ ممالک تردید بھی کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کو اس وقت بلوچستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے جہاں سی پیک کے اہم ترین منصوبے ہیں۔ معاشی مسائل کا شکار پاکستان کی حکومتیں سی پیک کو ملکی معیشت کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دیتی ہیں۔
حکومت نے اینٹی سولر پالیسی اپنالی، گرین میٹر کی قیمت ڈبل کر دی
ویسے بھی پاکستان کے لیے چین اس لیے اہم ہے کہ چین ہی واحد ملک ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ چنانچہ اب پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں اور حکومتِ کو امن و امان اور سیکیورٹی سے متعلق چینی قیادت کے خدشات دور کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کرنا ہوں گے۔