سینیئر صحافی نصرت جاوید کس قومی بیانیے کی تلاش میں ہیں؟

 

 

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ وہ اپنی عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کے باوجود حکمران طبقات کی جانب سے یہ طعنے سنتے آ رہے ہیں کہ ہمارے صحافی قومی بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ خود ریاستی فیصلہ سازوں کو بھی علم نہیں کہ ان کا قومی بیانیہ کیا ہے۔

 

روزنامہ نوائے وقت کے لیے اپنے تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ہمارے سینئرز ہمیں مجبور کرتے تھے کہ جو دیکھو یا سنو اسے ہوبہو بیان کرنے کی کوشش کرو اور ایسا کرتے ہوئے اپنی رائے کے اظہار سے گریز اختیار کرو۔ انکا کہنا تھا کہ ذاتی رائے کے اظہار کے لئے کالم لکھے جاتے ہیں لیکن خبر میں صرف انفارمیشن ہوتی ہے رائے نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ اخبار کا اداریہ ہوتا ہے جس کے ذریعے مدیر کی سوچ بیان کردی جاتی ہے۔ نصرت بتاتے ہیں کہ میں نے جو دیکھا اور سنا اسے ہو بہو ’’بیان‘‘ کرنے کی مشق سے گزر کر صحافت میں کچھ نام کمانے کی کوشش کر رہا تھا کہ انٹرنیٹ آگیا جس نے حقائق رپورٹ کرنے پر صحافیوں کی اجارہ داری کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ انٹرنیٹ متعارف ہونے کے چند ہی برس بعد کیمروں والے موبائل فونز آ گئے۔ چنانچہ اب موقع پر موجود ’’سٹیزن جرنلسٹ‘‘ تصویر سمیت کسی بھی واقعے کو اس مقام سے صحافیوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تئیں بیان کر دیتے۔ ان کی بھیجی خبروں کی سرعت اور کثرت نے روایتی رپورٹروں کو ماضی کے کاتبوں کی طرح صحافتی تناظر میں لا تعلق بنانا شروع کردیا۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مجھ جیسے ذات کے رپورٹر اپنا رزق یقینی بنانے کے لئے زبان وبیان کے ہنر کی تربیت ومشقت کے بغیر ’’کالم نویس‘‘ بن کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع ہو گئے۔ میری عمر کے لوگ اپنے کالموں کے ذریعے جو سوالات اٹھاتے انہیں نئی نسل نے تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی مذموم کوشش تصور کیا۔ یہ سوچ بھی تیزی سے پھیل گئی کہ شاید سیاستدان کا روپ دھارے ’’چور اور لٹیروں‘‘ کے دئے لفافے ہمیں منفی سوالات اٹھانے کو مجبور کررہے ہیں۔ اس سوچ کو تقویت دینے کیلئے صحافیوں کی ذاتی زندگیوں کی کڑی نگرانی شروع ہوگئی۔ ان کے فیس بک اکائونٹس کا تفتیشی افسروں کی طرح جائزہ لیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کئی صحافی اپنے خاندان کی خواتین ا ور قریب ترین خاتون دوستوں کے ساتھ پارٹی کرنے کی وجہ سے عیاش اور بدکردار ٹھہرائے گئے۔

 

جب لفافوں اور بدکرداری کے الزامات نے پرانے صحافیوں کی ساکھ کو تباہ کردیا تو تبدیلی کی راہ استوار کرنے کے لئے قومی مفادات کا تحفظ کرنے والے صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی گئی جن میں سے بہت سارے بعد میں عمرانڈو بن گئے۔ ان کی بدولت ہوئی ’’ذہن سازی‘‘ نے بالآخر ہمیں ایسا وزیر اعظم فراہم کردیا جسکے انتظار میں نرگس نامی ہھول ہزاروں برس سے آنسو بہا رہا تھا۔ نصرت جاوید کے بقول اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد رشک قمر فیصلہ سازوں نے ’’تبدیلی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ بنے بدکردار صحافیوں کو ٹی وی چینلز سے بھی فارغ کردیا۔

صحافت کو بدکرداروں سے پاک کرنے کے بعد قوم کو ایک دلیر اور ایمان دار قائد کی اطاعت میں استحکام وخوشحالی کی جانب بڑھتے رہنا چاہیے تھا۔ لیکن ’’تبدیلی‘‘ کے سرپرست ریاستی اداروں کو عمران کی حکمرانی کے سٹائل نے مایوس کرنا شروع کر دیا۔ طاقت ور فیصلہ سازوں نے محسوس کیا کہ انہیں مزہ نہیں آ رہا لہذا انہوں نے مزہ لینے کے لیے وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی تیاری شروع کر دی۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس دوران ہم خبردار کرتے رہے کہ جس وزیر اعظم سے بھائی لوگوں کو مایوسی ہورہی ہے اسے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے ورنہ بہت زیادہ گند پڑ جائے گا۔ لیکن عمران خان کی مخالف لابی کو یہ اطلاع دے کر ڈرا دیا گیا کہ اس نے قمرجاوید باجوہ کی آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے پسندیدہ فیض حمید کو 29 اپریل 2022 کو نیا آرمی چیف نامزد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ایسا ہو گیا تو جنرل فیض حمید اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کی دو تہائی اکثریت یقینی بنا دے گا۔ لہذا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت اختلافات بھلاکر یکجا ہو گئی اور اپریل 2022 میں عمران کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کر دیا گیا۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ موصوف فارغ ہونے کے بعد باجوہ کے دوغلے پن کی وجہ سے امریکہ کو اپنی برطرفی کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے عوام میں مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔ اس الزام کا ڈھونڈراپیٹتے ہوئے انہوں نے ریاستی اداروں میں ’’میر جعفر‘‘ بھی نشان زد کرنا شروع کر دئے۔ اس کے بعد کے واقعات حالیہ تاریخ ہیں لہذا انہیں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سینیر صحافی کہتے ہیں کہ فی الوقت میرا مسلہ ’’قومی بیانیے‘‘ کے خدو خال ڈھونڈنا ہے تاکہ مرنے سے قبل انہیں اجاگر کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکوں۔ انکا کہنا ہے کہ ’’قومی بیانیے‘‘ کے خدوخال کسی بھی حکمران فرد یا ادارے نے مجھے ابھی تک سمجھائے نہیں۔ غالباََ یہ سوچ کو نظرانداز کر دیا ہو گا کہ ایک بوڑھے اور بدکردار گھوڑے کو نئے کرتب نہیں سکھائے جاسکتے۔ یہ سوچ بھی غالب ہوگی کہ قومی بیانیہ نوجوان ہی تشکیل دے کر اسے پروان چڑھاسکتے ہی۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 6 اور7 مئی 2025 کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پر جو جنگ مسلط کی اس نے ’’قومی بیانیہ‘‘ تشکیل دینے والوں کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ ہماری فیاض ریاست نے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں کنجوسی نہیں دکھائی اور صحافیوں، سیاست دانوں اور جرنیلوں میں دھڑا دھڑ میڈلز تقسیم کیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میرا کند ذہن ’’قومی بیانیے‘‘ کے خدوخال ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔

Back to top button