جنرل فیض حمید نے عمران خان کے لیے کیا خاص پیغام بھیجا؟

 

 

 

تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی اور معروف صحافی ایاز امیر نے دعوی کیا ہے کہ اپنی گرفتاری سے پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل فیض حمید نے انہیں عمران خان کے لیے پیغام دیا تھا کہ پہلے جنرل قمر باجوہ کے خلاف بیان بازی اور پھر جنرل عاصم منیر پر مسلسل تنقید کی پالیسی درست نہیں ہے۔ یہ ایک فرد کی نہیں بلکہ ادارے کی مخالفت بن جاتی ہے جو اچھی بات نہیں۔ یعنی انہوں نے مجھے عمران خان کے لیے تحمل اور احتیاط برتنے کا پیغام دیا تھا جو اس نے نظر انداز کیا اور اب اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہے۔

 

ایاز امیر اپنے ایک تجزیے میں بتاتے ہیں کہ چکوال میں شادی کی ایک تقریب کے دوران جنرل فیض حمید میرے پاس آ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ عمران خان سے ملاقات ہو تو اسے کہنا کہ پہلے سابقہ اور اب موجودہ آرمی چیف پر تنقید کی پالیسی ایک فرد کے خلاف نہیں بلکہ ادارے کے خلاف بیانیہ اپنانے کی پالیسی بن جاتی ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ تاہم عمران باز نہیں آئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ایاز امیر بتاتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کی فیملی سے میرے چکوال کنکشن پر کافی پرانے تعلقات ہیں کیونکہ ہم دونوں کا تعلق چکوال سے ہے۔ جب مجھے تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹ ملا تو جنرل فیض حمید نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں میری بھرپور حمایت کی۔ آج کل ان پر مقدمہ چل رہا ہے اور طرح طرح کے الزامات لگ رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے جو بات مجھ سے کہی اس سے ان کی حقیقت پسندانہ سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

یاد رہے کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران فرعون بن جانے والے جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ فیض حمید نے بطور آئی ایس آئی چیف عمران کے سیاسی مخالفین بشمول سیاست دانوں اور صحافیوں کے خلاف آخری حد تک جاتے ہوئے اوچھے ترین ہتھکنڈے استعمال کیے۔ فیض حمید نے نہ صرف مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے وابستہ سیاست دانوں کو جھوٹے کیسز میں گرفتار کروایا بلکہ صحافیوں کو نہ صرف گولیاں ماری گئیں بلکہ گرفتار بھی کروایا گیا۔ چنانچہ آج وہ مکافات عمل کا شکار ہیں اور ان کے دوست ایاز امیر یہ چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فیض حمید جنرل عاصم منیر کے خلاف نہیں ہے اور عمران خان کو سمجھانا چاہتے تھے۔

 

دوسری جانب کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے جنرل فیض حمید کو کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے علاوہ عمران خان کے ساتھ مل کر فوج میں بغاوت کی سازش رچانے کے الزام کا بھی سامنا ہے چونکہ انہیں جنرل عاصم منیر بطور آرمی چیف قابل قبول نہیں تھے۔ یاد رہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور اسی معاملے پر ان کے جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ جنرل باجوہ اور عمران کے مابین اختلافات کا آغاز تب ہوا تھا جب فوجی قیادت نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو فیض حمید کی جگہ نیا آئی ایس آئی چیف لگانے کا فیصلہ کیا اور فیض حمید کو کور کمانڈر بنا کر پشاور بھیجا گیا۔ ان اختلافات کا نتیجہ بالاخر 2022 میں ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی وزارت عظمی سے برطرفی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔

 

بعد ازاں جب جنرل عاصم منیر کو سینیارٹی کی بنیاد پر نیا آرمی چیف لگانے کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا تو عمران خان نے فیض حمید کے مشورے پر آخری حد تک جاتے ہوئے جی ایچ کیو راولپنڈی کے باہر مظاہروں کی کال بھی دے دی تھی۔ عمران اور فیض نے عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو پائے۔ لہذا اب اگر ایاز امیر یہ چورن بیچنے کی کوشش کریں گے کہ فیض حمید تو عمران کو اس راستے پر چلنے سے روکنا چاہتے تھے تو یہ چورن بکنے والا نہیں۔

Back to top button