ریفرنس پر عدالت جو بھی فیصلہ دے، عمران کا بچنا نا ممکن

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر باقاعدہ کارروائی شروع ہونے سے قبل صدر عارف علوی نے منحرف اراکین اسمبلی کو ووٹنگ سے رکوانے کے لیے سپریم کورٹ مںں ریفرنس تو دائر کر دیا ہے لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت اس معاملے پر جو بھی رائے دے، عمران خان اپنی وزارت عظمیٰ نہیں بچا پائیں گے چونکہ وہ ایوان میں اکثریت کھو چکے ہیں۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم اپنی مرضی کا عدالتی فیصلہ حاصل کر کے منحرف پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کو ووٹ دینے سے رکوا بھی لیں تو باغی اراکین اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں بھی عمران اکثریت کھو بیٹھیں گے اور انہیں اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا جو وہ نہیں لے پائیں گے، لہذا کپتان کی وزارت عظمی بہر صورت ختم ہو جائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ منحرف اراکین پر اپوزیشن سے پیسے وصول کرنے کا الزام لگانے کے باوجود عمران خان عوامی جلسوں میں انہیں معافی دینے اور پارٹی میں واپس آجانے کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

20 مارچ کو بھی مالاکنڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پارٹی چھوڑ جانے والے اراکین قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘جو ارکان غلطی کر بیٹھے ہیں، آپ واپس آجائیں، میں انہیں معاف کر دوں گا، میں آپ کے باپ کی طرح ہوں، آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن پھر خان صاحب نے حسب روایت ایک بونگی مارتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر آپ لوگ واپس نہ آئے تو آپ پورے پاکستان میں بدنام ہو جائیں گے اور آپ کے خاندان کے لوگوں کو رشتے بھی نہیں ملیں گے۔

یاد رہے کہ 21 مارچ کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے مشورے پر دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی بنیاد بطور پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی جانب سے ایسے 14 اراکین اسمبلی کو جاری کردہ شوکاز نوٹس ہے، جس میں ان سے پارٹی پالیسی سے انحراف پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔

صدارتی ریفرنس میں انحراف کے عمل کو ملک کی سیاست میں کینسر قرار دیا گیا ہے اور اس کے مستقل علاج کے لیے ججز کی مدد مانگی گئی ہے۔ وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو موقع دے رہا ہے کہ ’ملک میں جاری ہارس ٹریڈنگ، موقعہ پرستی اور کرپشن کے ڈرامے ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکیں۔‘ صدر عارف علوی نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’صدارتی ریفرنس ممبران پارلیمنٹ کے انحراف کی خبروں، ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر فائل کیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے ان اراکین نے اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ تمام ممبران اسمبلی ماضی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے وابستہ تھے جنہیں 2018 کے الیکشن سے پہلے پارٹیاں بدلوا کر تحریک انصاف میں شامل کروایا گیا تھا۔ تب ان ممبران قومی اسمبلی کے گلوں میں تحریک انصاف کے جھنڈے ڈالتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ ان کے ضمیر جاگ اٹھے ہیں۔ لیکن اب خان صاحب انہی لوگوں کو ضمیر فروش قرار دے رہے ہیں۔ یعنی ان لوگوں کا تحریک انصاف میں آنا حلال تھا جبکہ اپوزیشن کے ساتھ جانا حرام ہے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت جب تک کوئی رکن قومی اسمبلی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں ڈالتا اس کے خلاف نااہلی کی کارروائی شروع نہیں ہو سکتی۔ لیکن اب اس ایشو پر صدارتی ریفرنس دائر کرکے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تاخیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا کسی رکن قومی اسمبلی کو فلور کراسنگ کرنے سے پہلے ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا؟

صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ سے چار بنیادی سوالات کی تشریح کی درخواست کی ہے۔پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اگر کوئی خیانت کرتا ہے اور اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے انحراف کرتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی ہے اور اسے ڈی سیٹ یعنی اپنے کیے کی سزا دیتے ہوئے اسے اس کی نشست سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس سوال میں ہی جو دوسرا نکتہ اٹھایا گیا ہے وہ یہ کہ جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لیے ایک وسیع مشاورت کے بعد آئین میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ہے جس کے تحت ایسے رکن کو تاحیات نااہلی قرار دیا جا سکتا ہے تاکہ اس قسم کی دھوکہ دہی، غیرآئینی اور غیراخلاقی عمل میں شریک ارکان میں ڈر پیدا کیا جاسکے۔

ریفرنس میں سپریم کورٹ سے یہ رائے بھی مانگی گئی ہے کہ کیا ایسے غیر اخلاقی عمل میں شریک منحرف اراکین کے ووٹ کی کوئی وقعت باقی رہ جاتی ہے اور کیا ایسے اراکین کو ووٹ دینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟

یون فیلڈ ریفرنس کی پیروی کیلئے نیا پراسیکیوٹر مقرر

تیسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ ایسا رکن جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کہتا اور اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیتا اور بعد میں اپیل میں سپریم کورٹ سے بھی اگر اسے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے اور صادق اور امین نہ رہے تو پھر کیا ایسے میں اس رکن کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا؟ چوتھے سوال میں عدالت عظمیٰ کے ججز سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ موجودہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کیا ایسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں کہ جس سے انحراف، فلور کراسنگ اور ووٹ بکنے جیسے عمل کو روکا جا سکے۔

عدالتی رائے مانگنے کے علاوہ صدارتی ریفرنس میں فلورکراسنگ، ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ کی فروخت جیسے عوامل کے جمہوری عمل پر پڑنے والے ’نقصانات‘ پر عارف علوی نے اپنی رائے دی ہے۔ ان کا کہنا یے کہ جب تک اس طرح کی پریکٹسز کو ختم نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک صحیح جمہوری عمل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اس ریفرنس کے نتیجے میں جو بھی عدالتی جواب حاصل کریں، ان کی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے کیونکہ وہ بہرصورت قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو چکے ہیں۔

Whatever court decides it is impossible for Imran to escape

Back to top button