ایمل ولی خان کی سکیورٹی دراصل کون واپس لےرہاہے؟

حکومت اور عسکری قیادت کو ہدف تنقید بنانے اور بیہودہ الزامات عائد کرنے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سینیٹر ایمل ولی خان زیر عتاب آ گئے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی واپس لینے کے ایک روز بعد اسلام آباد پولیس نے انھیں حراست میں لے لیا ہے۔

ایمل ولی خان کی گرفتاری کی خبر نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے ناقدین کے مطابق سینیٹر ایمل ولی خان کی گرفتاری محض ایک سیاسی واقعہ نہیں بلکہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی گرتی ہوئی آزادی اور ریاستی برداشت کے کمزور ہوتے تصور کی ایک اور مثال بن کر سامنے آئی ہے۔ ایمل ولی خان کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ اقتدار کے ایوان اختلافی آوازوں سے شدید خائف ہو چکے ہیں۔ تاہم دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ ایمل ولی خان کی جانب سے حکومت اور عسکری اداروں کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی ناقابل قبول ہے۔ ملکی آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی شخص یا ادارے پر اس طرح الزامات کی بوچھاڑ کی جائے۔ ایمل ولی خان کو حراست میں لیا گیا ہے تاہم ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کر کے انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان کو نفرت انگیز بیانات پر درج مقدمے کے تحت گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، تاہم پولیس ذرائع کے مطابق ایمل ولی خان غیر قانونی طور پر مسلح افراد کے ہمراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھےجبکہ ان کے خلاف اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کا مقدمہ بھی درج ہے۔ذرائع کے مطابق گرفتاری کے بعد ایمل ولی خان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا جبکہ اے این پی کارکنان کی جانب سے ممکنہ احتجاج کے پیش نظر دارالحکومت میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

واضح رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سینیٹر ایمل ولی خان نے سوموار کو ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ وفاقی و خیبر پختونخوا حکومت نے ان سے سرکاری سکیورٹی واپس لے لی ہے۔ یہ معاملہ ایمل ولی خان پر وزیر مملکت برائے داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ کے سینیٹر طلال چودھری کی جانب سے تنقید کے بعد سامنے آیا جب طلال چودھری نے ایمل ولی خان کی تین اکتوبر کو سینیٹ میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے جواب کہا تھا کہ جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے، ان پر اگر کوئی تنقید کرے گا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ جس کے بعد ان سے وفاقی حکومت کی جانب سے دی گئی سیکیورٹی واپس لے لی گئی تھی جبکہ اب انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیداروں پر ماضی میں خودکش حملے اور دھماکے ہوئے ہیں جن میں پارٹی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور اور ہارون بلور بھی جان سے گئے تھے۔ اسی طرح پارٹی کے سینیئر رہنما اور ایمل ولی خان کے والد اسفندیار ولی خان کو بھی ماضی میں دھماکوں سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہ محفوظ رہے اور اسی وجہ سے ان کے پاس سرکاری سکیورٹی تعینات رہتی ہے۔ ایمل ولی خان بلوچستان سے سینیٹر بنے ہیں اور ان کے ساتھ اور چارسدہ میں ان کے گھر پر وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس اہلکار تعینات تھے تاہم اب ان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔

عمران خان کا انقلاب لانے کا خواب چکنا چور کیسے ہوا؟

تاہم وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطابق صوبائی حکومت کا اس سارے ڈرامے سے کوئی تعلق نہیں۔‘وفاقی وزارتِ داخلہ نے براہِ راست آئی جی کو سکیورٹی واپس کرنے کے یہ تمام احکامات دئیے ہیں۔ ایمل ولی خان کے مطابق خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے سیکیورٹی واپس لینے کے بعد وزیر اعلیٰ کی جانب سے انھیں فوری سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تاہم آئی جی خیبرپختونخوا نے علی امین گنڈاپور کے احکامات ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ جس کے بعد ایمل ولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان کو ولی باغ میں اپنے گھر کی سیکیورٹی سنبھالنے کی ہدایات جاری کر دیں جبکہ اسلحے سے لیس پارٹی کارکنان نے ایمل ولی خان کی سیکیورٹی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی۔ ایمل ولی خان اپنے مسلحہ کارکنان کے ہمراہ اسلام آباد آ رہے تھے کہ راستے میں ہی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے جس کے بعد پولیس نے ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے کیلئے انھیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ حکومت ایمل ولی خان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے یا نہیں۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!