پاکستان کو چھوڑ کر انڈیا سے یاری:طالبان کاکیاانجام ہوگا؟

افغان طالبان نے پاکستان، چین اور امریکہ کو چھوڑ کر بھارت سے دوستی کو مزید مضبوط بنانے کا فیصلہ کر کے اپنے انجام کی بنیاد رکھ دی ہے۔ امریکہ اور پاکستان سے تعلقات میں سردمہری کے پس منظر میں افغانستان کے وزیرِ خارجہ ملا امیر خان متقی کا متوقع دورۂ بھارت کوخطے کی سفارتی بساط پر ایک نیا اور غیر متوقع موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم مبصرین کے نزدیک یہ قدم طالبان حکومت کی سفارتی ناپختگی اور وقتی مصلحت کا عکاس ہے۔ امریکی ناراضی کے دوران بین الاقوامی قبولیت کے حصول کیلئے نئی دہلی سے دوستی کا عمل طالبان کو انجام کی طرف لے جائیگا ۔

ناقدین کے مطابق امریکہ سے کشیدگی اور پاکستان سے بڑھتی خفگی کے دور میں بھارت سے قربت حقیقت میں طالبان کے لیے ایک سیاسی خودکشی ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ عالمی تناظر میں بھارت خود سفارتی زوال کا شکار ہے اور اسے ہر محاذ پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ایسے میں وہ نہ افغانستان کو اقتصادی سہارا دینے کی پوزیشن میں ہے، نہ سفارتی سطح پر اس کی حکومت کے لیے بین الاقوامی قبولیت حاصل کرا سکتا ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کے ساتھ کسی بھی قسم کی قربت طالبان کو اسلام آباد اور بیجنگ جیسے خطے کے حقیقی شراکت داروں سے مزید دور کر دے گی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کا نئی دہلی کا رخ دراصل ایک ایسے دروازے پر دستک ہے جو کھلنے کے بجائے بند ہونے کے قریب ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی افغانستان کو استحکام کی بجائے تنہائی اور سیاسی انجماد کے ایک نئے مرحلے میں دھکیل سکتی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق طالبان کی حکومت کو تین سال گزر چکے، مگر آج بھی اسے عالمی سطح پر باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ روس واحد ملک ہے جس نے رسمی طور پر طالبان کو تسلیم کیا ہے، جبکہ پاکستان، چین اور ایران سمیت باقی دنیا نے اس حوالے سے محتاط خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ایسے میں نئی دہلی کا رُخ کرنا طالبان کے لیے ایک “خطرناک تجربہ” ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب بھارت خود خطے میں اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا ملک بھارت جو طالبان حکومت کا سب سے بڑا مخالف رہا، اب اچانک کابل کے لیے “دوست” کیسے بن گیا؟ کیا یہ طالبان کی سفارتی کمزوری کا نتیجہ ہے، یا پاکستان سے بڑھتی خفگی کا مظہر؟

سفارتی ماہرین کے مطابق جب طالبان 2021 میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہوئے تو یہ تاثر عام تھا کہ کابل میں ایک “پاکستان دوست” حکومت قائم ہو گئی ہے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوش فہمی ختم ہو گئی۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات، ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر اسلام آباد کے تحفظات، اور کابل کی خاموشی نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔ پاکستان نے بارہا شواہد پیش کیے، مگر افغان انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ نتیجتاً، اسلام آباد میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ طالبان “دوست” سے زیادہ “مشکل ہمسائے” بن چکے ہیں۔ ایسے میں طالبان کا بھارت کی طرف جھکاؤ محض ایک سیاسی اشارہ نہیں بلکہ ایک سفارتی انتقام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جس نے پاکستانی حکام کو بھی مزید الرٹ کر دیا ہے۔ ناقدین کے مطابق بھارت افغانستان سے دوستی کو قطعا خواہشمند نہیں وہ خطے میں پاکستان اور چین کے بڑھتے کردار سے پریشان ہے۔ لہٰذا وہ افغانستان کے ذریعے وسط ایشیا تک رسائی، چین کی سرمایہ کاری پر نظر اور پاکستان کے اثر کو کمزور کرنے کا خواہاں ہے اسی مقصد کے حصول کیلئے وہ افغانستان سے پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ تاہم  تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کبھی کسی افغان حکومت کا پائیدار دوست نہیں رہا۔ چاہے وہ نجيب حکومت ہو یا کرزئی و غنی کا دور، ہر دور میں بھارت کی پالیسیاں ہمیشہ اپنے مفاد کے گرد گھومتی رہی ہیں۔

کیا حکومت ایمل ولی خان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ بھارت طالبان سے روابط بڑھا کر پاکستان کو سفارتی طور پر محدود کرنے کا خواہشمند ہے۔ لیکن طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ بھارت کے لیے محض ایک کارڈ ہیں، جنہیں وقتی طور پر کھیلنے کے بعد پھینک دیا جائے گا۔ افغانستان کا جغرافیہ اور معیشت دونوں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کی بقا اسلام آباد کے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے۔ پاکستان ان کا سب سے قریبی تجارتی راستہ، توانائی سپلائر اور سفارتی سہارا ہے۔ نئی دہلی کی طرف بڑھنا وقتی شہرت تو دے سکتا ہے مگر پائیدار استحکام کیلئے انھیں بالآخر اسلام آباد سے ہی رجوع کرنا ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اسلام آباد کی شکایات کا ازالہ کرے، نہ کہ بھارت کے ساتھ ایک غیر حقیقی اتحاد میں خود کو جھونک دے۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے جب کابل نے دہلی پر بھروسہ کیا، تو نقصان ہمیشہ کابل کا ہی ہوا۔ اب بھی نئی دہلی سے دوستی کا عمل طالبان کو عبرتناک انجام کی طرف لے جائے گا۔”

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!