گنڈاپور اور مریم نواز میں سے بہترین اور بدترین وزیراعلی کون؟

پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال میں دو بڑے صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں دو مخالف سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ اس لئے کوئی بھی سانحہ ہو یا زمینی آفت دونوں صوبوں کی حکومت باہم مقابل آ جاتی ہیں اور عوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ جاتی ہے کہ مریم نواز اور علی امین گنڈاپور میں سے بہترین وزیر اعلیٰ کون ہیں؟
ناقدین کے مطابق علی امین گنڈا پور اور عثمان بزدار جیسے رجالِ کار سے مریم نواز کا کیا مقابلہ؟ مریم نواز بھی کوئی وزیر اعلیٰ ہیں؟ وزیر اعلیٰ تو عالی قدر علی امین گنڈا پور جیسا ہونا چاہیے، جو گردو پیش سے بے نیاز اپنی ہی دھن میں کلاؤڈ برسٹ کی طرح رجز پڑھتا آئے: ’یا محبت! اخ تھو‘ اور اگلے ہی لمحے سرسوں کی مانند لہراتا لوٹ جائے۔ شہد جیسی میٹھی یہ بے ادائیاں ہی پھر اس کی کامرانی کی دلیل قرار پائیں۔ مریم نواز کو کیا خبر کہ اس جدید دور میں وزارت اعلیٰ کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ ناقدین کا مزید کہنا ہے کہ دونوں وزرائے اعلیٰ کے اندازِ سیاست، طرزِ حکمرانی اور عوامی ترجیحات نہ صرف مختلف ہیں بلکہ ایک دوسرے کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب میں مریم نواز کی سیاست اور طرزِ حکمرانی نسبتاً سنجیدہ اور عملی پہلوؤں پر مبنی نظر آتی ہے۔ وہ انتظامی معاملات میں گہری دلچسپی لیتی ہیں، فیلڈ وزٹس کرتی ہیں، عوامی مسائل براہِ راست سننے کے لیے آگے آتی ہیں تاہم ان کی خودنمائی اور خودپسندی کی خواہش ان کی تمام کاوشوں کو داغدار کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈاپور کا اندازِ سیاست زیادہ تر جارحانہ بیانات، دھمکیوں اور بلند بانگ دعوؤں پر مبنی ہے۔ ان کی تقریریں اکثر جذباتی اور مخالفین پر طنز و حملوں سے بھری ہوتی ہیں، مگر عملی سطح پر ان کی حکومت ابھی تک کوئی بڑا عوامی ریلیف یا پالیسی کا تسلسل دکھانے میں ناکام رہی ہے۔ گنڈاپور کے انداز کو ناقدین”دعوے یا بھڑک باز حکمرانی” قرار دیتے ہیں جہاں شور زیادہ اور کام کم ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں وزرائے اعلیٰ کی قیادت کا فرق یوں بھی واضح ہے کہ مریم نواز اپنے صوبے کو ترقی کے منصوبوں اور ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں، جبکہ گنڈاپور اپنی سیاسی زبان اور بیانیے کے ذریعے مقبولیت قائم رکھنے میں مصروف ہیں۔ پنجاب کی انتظامی مشینری مریم نواز کی نگرانی میں نسبتاً منظم دکھائی دیتی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں گورننس کا خلا بڑھتا نظر آتا ہے۔
مبصرین کے مطابق مریم نواز اور گنڈاپور میں کارکردگی کا مقابلہ یک طرفہ ہے کیونکہ مریم نواز دباؤ کے باوجود کچھ کرنے پر مجبور ہیں، جبکہ گنڈا پور کے لیے کارکردگی کوئی معیار ہی نہیں۔ مریم نواز کو بخوبی احساس ہے کہ اگر وہ کچھ کر دکھائیں گی تو نواز شریف کی سیاسی وراثت ان کے ہاتھ مضبوطی سے آ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکمرانی کو بطور چیلنج لے رہی ہیں اور عملی اقدامات کرتی نظر بھی آ رہی ہیں۔ ان کے برعکس علی امین گنڈا پور پر نہ تو کارکردگی دکھانے کا دباؤ ہے اور نہ ہی کسی داخلی احتساب کا خوف۔ وہ جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اندر صف اول میں آنے کے لیے صرف سوشل میڈیا پر شور شرابا اور پوسٹ ٹروتھ کی مہارت کافی ہے اور اس میں اب وہ کافی ماہر ہو چکے ہیں۔ ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی کے کارکنان کا المیہ یہ ہے کہ وہ کارکردگی سے زیادہ تعصب، نفرت اور ہیجان پر زندہ ہیں۔ ان کے سوشل میڈیا پر بھی حکومتی کارکردگی کی بجائے دن رات دوسروں کی تذلیل اور تضحیک کا ہی میدان گرم رہتا ہے۔ تعمیر کی جگہ احتجاج اور ہیجان ہی پی ٹی آئی کا اصل ہتھیار ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مریم نواز کی طرزِ حکمرانی بھی مثالی نہیں۔ ان کے اقدامات میں خود نمائی اور جارحانہ پن واضح نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب میں ترقیاتی کام ہو رہا ہے اور وہ نظر بھی آ رہا ہے۔ مریم نواز نے چاہے سیلاب متاثرین کو امداد دیتے وقت اپنے نام کی تشہیر کی ہو، یا امدادی پیکٹ پر اپنی تصویر لگوائی ہو، پھر بھی سوال یہی ہے کہ گنڈا پور کی اپنی عملی کامیابیاں کہاں ہیں؟ تحریک انصاف کا بیانیہ صرف دوسروں کی ناکامیوں پر کیوں زندہ ہے؟ مبصرین کے مطابق اگر مریم نواز اپنی خودنمائی کی خواہش کو پس پشت ڈال کر اپنے مزاج میں موجود عمران خان جیسی تکلیف دہ جارحیت کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف جیسا تحمل اور وضع داری لانے میں کامیاب ہوگئیں تو اگلے الیکشن تک پنجاب کا سیاسی منظر نامہ یکسر مختلف ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف گنڈا پور اگر صرف شور شرابے اور نعروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات دکھانے کا حوصلہ پیدا کر لیں تووہ کارکردگی میں بھی نون لیگ کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں تاہم اس تجویر پر عملدرآمد کے آثار کم نظر آتے ہیں۔
