ٹرمپ سے اچھے کی امید رکھنے والے یوتھیے احمق کیوں قرار پائے ؟

معروف صحافی اور ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر عباس ناصر نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ سے اچھی امیدیں وابستہ کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا۔ انکا کہنا ہے کہ وہ جتنے کھلے انداز میں دوسرے ممالک کے ساتھ لین دین کی پالیسی اپناتے ہیں اسکی بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے اگلے فیصلے کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کا عمل بھی انکی لین دین کی پالیسی کا مظہر ہے جس نے عمران خان کے حمایتیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
روزنامہ ڈان کے ادارتی صفحہ پر اپنے تازہ تجزیے میں عباس ناصر کہتے ہیں جوہری ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ ممالک پاکستان اور انڈیا کو خوش کرنا اور انہیں ایک دوسرے سے غیرمحفوظ محسوس کروانا کس قدر آسان ہے، اس کا ثبوت ہم نے گزشتہ ہفتے تب دیکھا کہ جب کانگریس سے خطاب میں امریکی صدر ٹرمپ نے کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ملزم کی گرفتاری میں مدد اور اس کی امریکا حوالگی پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
اگست 2021ء میں یہ خودکش حملہ تب ہوا تھا جب طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے چند دن بعد امریکا افغانستان سے جلدبازی میں انخلا کی کوششوں میں مصروف تھا۔ اس حملے میں 170 افغان شہری جاں بحق ہوئے جو تنازعات سے متاثرہ اپنے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے لیکن یہ بم حملہ زیادہ افسوسناک اس لیے تھا کیونکہ اس میں 13 امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
عباس ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان اور اسکے عوام کی موجودہ حالت زار ہمارے رویوں سے عیاں ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے شکریہ ادا کرنے پر ہمارا ردعمل کیسا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی صدر سے اظہارِ تشکر میں ایک طویل پیغام ایکس پر پوسٹ کیا۔ تحریک انصاف سے وابستہ ایک اکاؤنٹ نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نے پہلے صدر ٹرمپ کو اپنی پوسٹ میں ٹیگ کیا لیکن بعدازاں تنقید کے باعث انہوں نے ٹیگ ہٹا دیا۔ پاکستان کا امریکا اور امریکی مالی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ لیکن بھارت خود کو امریکا کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے جو چین پر مرکوز امریکی پالیسی کا اہم کردار ہے جبکہ بھارت کا ماننا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ کسی ایک ملک پر بھروسہ کیے بغیر دیگر ممالک کے ساتھ مساوی تعلقات کو سنبھال سکتا ہے۔
اگرچہ بھارت کی جانب سے امریکی صدر کی پاکستان کی تعریف پر کوئی باضابطہ بیان تو سامنے نہیں آیا لیکن بھارتی میڈیا نے ایک نیوز رپورٹ ضرور شائع کی جس میں جس میں ’سرکاری ذرائع‘ کا مؤقف شامل تھا۔ اس رپورٹ میں کابل ائیرپورٹ پر ہونے والے خود کش حملے کے ملزم کی گرفتاری کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ کہا کہ اس حملے میں ملزم کا کردار بہت کم تھا۔ تاہم اس رپورٹ میں شامل بہت سے مواد کو ان ماہرین نے چیلنج کیا ہے جو خطے میں دہشت گردی کی صورت حال پر قریبی نظر رکھتے ہیں۔
اب ملزم کا کیا کردار تھا اور یہ بحث کہ یہ کردار کتنا اہم تھا، سب سے قطع نظر امریکی صدر نے اسے بڑی جیت قرار دیتے ہوئے ’مونسٹر‘ کو پکڑنے میں معاونت پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ توقع کے عین مطابق ٹرمپ کے پیغام سے پاکستان متمنی ہے۔ اور ظاہر ہے اس نے بھارت کو بےچین کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے خیر سگالی کا جو پیغام پاکستان کو دیا ہے اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین سکیورٹی تعاون مزید آگے بڑھے گا جس سے عمران خان کی رہائی کی امیدوں پر مذید پانی پھرنے کا امکان ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے حکومت پاکستان کی تعریف پر پی ٹی آئی کی مایوسی عروج پر ہے۔ رہی سہی کسر پی ٹی آئی کے ایک پسندیدہ تجزیہ کار اور ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے پوری کردی۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ لوگ جو امید کرتے تھے کہ نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے گی، پابندیاں لگائے گی، عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالے گی، انکو بتانا ضروری یے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ شریف اللہ کی گرفتاری پر پاک، امریکا تعاون کی خبریں ایک یاد دہانی ہے کہ امریکا کو اب بھی یقین ہے کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کچھ محاذوں پر اس کے کیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے‘‘۔
پاکستان سویلینز نے چلانا ہے یا جرنیلوں نے، فیصلہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟
مائیکل کوگل مین کی بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے خود کش دھماکے سے منسلک ایک اہم دہشت گرد کو پکڑنے میں جہاں پاکستانی حکومت کی مدد پر شکریہ ادا کیا۔ وہیں اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی کرتے ہوئے پاکستان کو ایف 16 لڑاکا طیاروں کے بیڑے کو برقرار رکھنے کے لیے 397 ملین ڈالر کی منظوری بھی دی ہے۔ یہ فیصلہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی امداد پر پابندی کے آرڈر کے باوجود کیا گیا ہے۔