بلوچستان عوامی پارٹی اپوزیشن کے ساتھ کیوں مل گئی؟

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کے عوض بلوچستان عوامی پارٹی نے موجودہ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو ہٹانے کی یقین دہانی حاصل کی ہے، اس سلسلے میں جمیعت علماء اسلام اور دیگر اتحادی جماعتیں ان کا ساتھ دیں گے تاکہ باپ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلی جام کمال کی مرضی کا وزیراعلیٰ لایا جا سکے۔ اس کے علاوہ عمران حکومت کے خاتمے کی صورت میں بلوچستان عوامی پارٹی کو وفاقی کابینہ میں وزارتیں بھی دی جائیں گی۔
28 مارچ کے روز قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وزیراعظم عمران خان قاف لیگ کے چار اراکین قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوں گے لیکن انہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اتحادی اراکین کی بغاوت کا جھٹکا بھی سہنا پڑ گیا، یعنی ان کی جیب میں چار ووٹ آئے تو چار چلے بھی گئے۔ یاد رہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے اپوزیشن کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا کر اپنا ریٹ لگوانے اور حکومت کے ساتھ چلی جانے والی قاف لیگ کے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ نے عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب باپ پارٹی کے پانچ رکنی اسمبلی میں سے زبیدہ جلال نے عمران کے خلاف نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے اور انہوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ تاہم باپ کی قیادت کو امید ہے کہ وہ آخری لمحات میں زبیدہ جلال کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ باپ پارٹی پانچ اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ بلوچستان سے تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت تھی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ باپ کے اراکین اسمبلی کو نہ صرف وزیر اعظم عمران خان سے شکایات تھیں بلکہ انھوں نے موجودہ صورتحال میں اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا تاکہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ ایک اچھی بارگین کر سکیں۔ اگرچہ باپ اس وقت دو واضح گروپوں میں تقسیم ہے لیکن دونوں گروپوں کی جانب سے تحریک انصاف اور متحدہ حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات اور فیصلے کا اختیار قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی رہنما نوابزادہ خالد مگسی کو دیا گیا تھا جنھوں نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا۔ نوابزادہ خالد مگسی کا کہنا تھا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس وقت موقع ہے کہ عمران خان سے جان چھڑائی جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’متحدہ اپوزیشن پچھلے تجربات کے ساتھ ایک نئے ارادے کے ساتھ آئی ہے۔ اس لیے ان کی دعوت کو قبول کیا۔ ہم چاہتے تھے کہ ایک نئے انداز میں ملک کو سنبھالا جائے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان 72 سال سے محرومیوں کا شکار ہے اور ’ہم چاہتے ہیں اس کی جانب پوری توجہ دی جائے۔ تحریک انصاف کا نام لیے بغیر خالد مگسی نے کہا کہ پہلے ہم نے ان کے ساتھ ساڑھے تین سال گزارے لیکن اب یہ وقت ان سے گلے اور شکوے کا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ فیصلہ نیک نیتی کے ساتھ کیا اور توقع ہے کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔‘
خیال رہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد بی اے پی نے وفاق میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کیا تھا جبکہ تحریک انصاف نے بلوچستان میں بی اے پی کو سپورٹ کیا تھا۔ اس سوال پر کہ اہم اتحادی ہونے کے باوجود بی اے پی نے تحریک انصاف کا ساتھ کیوں چھوڑ دیا، سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی اپنے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے اس لیے بی اے پی کے لوگوں نے موجودہ حالات میں اپنے مفاد میں اسی کو بہتر سمجھا۔
ذوالفقار کا کہنا تھا بی اے پی کا اندازہ تھا کہ تحریک انصاف کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد عمران خان سے ناراض ہے جس کے باعث انھوں نے ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو دیا ہے جس کے پیش نظر انھوں نے پہلے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ متحدہ حزب اختلاف کا ساتھ دیں گے۔انھوں نے بتایا کہ شاید وہ اس فیصلے کا اعلان آگے جا کر کرتے لیکن تحریک انصاف نے ق لیگ کی حمایت کا کارڈ شو کیا تو حزب اختلاف نے بی اے پی کا کارڈ شو کیا۔
’جب عمران خان نے ق لیگ کو منا کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے کا اعلان کیا تو ان کے مقابلے میں حزب اختلاف نے یہ دکھایا کہ بی اے پی کے اراکین ان کے ساتھ ہیں جبکہ انھوں نے گزشتہ روزجمہوری وطن پارٹی کا کارڈ شو کیا تھا اور شاہ زین بگٹی کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔
یاد رہے کہ جب نوابزادہ خالد مگسی اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر رہے تھے تو پریس کانفرنس میں پارٹی کے چار اراکین خود نوابزادہ خالد مگسی، اسرار ترین، روبینہ عرفان اور احسان اللہ ریکی موجود تھے جبکہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال موجود نہیں تھیں۔
پارٹی کے اندرونی زرائع کے مطابق زبیدہ جلال پریس کانفرنس سے قبل باقی اراکین کے ساتھ تھیں لیکن سہ پہر تین بجے وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ انھیں سوچنے کا موقع دیا جائے تاہم وہ واپس نہیں آئیں۔ شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات ہیں اور شاید زبیدہ جلال کو اس فیصلے سے کوئی اختلاف ہو جس کی وجہ سے وہ پریس کانفرنس میں نہیں آئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ زبیدہ جلال کی شرائط ہوں جس میں یہ شرط بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں انھیں آئندہ کابینہ میں بھی شامل کیا جائے۔
بلوچ ایم این اے محمد اسلم بھوتانی حکومتی اتحاد سے الگ
اگرچہ زبیدہ جلال اس پریس کانفرنس میں نہیں تھیں لیکن بے اے پی کے دیگر اراکین قومی اسمبلی کو یہ توقع ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل جائیں گی۔ بلوچستان سے قومی اسمبلی کے اراکین کی تعداد 20 ہے اور اس وقت پانچ جماعتوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی حاصل ہے۔ ان میں سے چھ اراکین جے یو آئی (ف)، پانچ اراکین باپ، چار اراکین بلوچستان نیشنل پارٹی، تین اراکین تحریک انصاف اور ایک رکن جمہوری وطن پارٹی کا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے باپ کی قیادت کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہے کہ عمران خان کی مرکز میں حکومت ختم ہونے کے بعد بلوچستان کے وزیراعلی عبدالقدوس بزنجو کو ہٹا کر سابق وزیراعلی جام کمال کی مرضی کا چیف منسٹر بنایا جائے گا۔
Why Balochistan Awami Party joined the opposition? ] video in Urdu