عمران خان اور بشریٰ بی بی نے زبان بندی کیوں اختیار کر لی؟
گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بار پھر ملکی سیاسی حلقوں میں ڈیل اور ڈھیل کی افواہیں گرم ہیں تاہم جہاں ایک طرف مقتدر حلقے ایسی افواہوں کو پی ٹی آئی کی طرف سے پھیلائے گئے خود ساختہ دعوے قرار دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب عمران خان کی بہنوں اور اہلیہ کی رہائی، عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کے خاتمے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی پراسرار خاموشی ان افواہوں کو مزید تقویت دیتی دکھائی دیتی ہے کہ شاید کسی سطح پر پی ٹی آئی کےلیے نرم گوشہ پیداہو چکا ہے اور اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف دونوں نے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان اور بشری بی بی کی زبان بندی کی شرط پر تحریک انصاف کو تھوڑا ریلیف فراہم کیا گیا ہے تاہم ساتھ ہی یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ اگر دوبارہ ملک کو انتشار اوربدامنی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی تو کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
تاہم اس حوالے سے ذرائع کا دعوی ہے کہ اطراف کی جانب سے اس بندوبست میں عمران خان کی رہائی کا پہلو شامل نہیں عمران خان صرف عدالتی احکامات اور مقدمات سے بریت پر ہی جیل سے باہر آ سکتے ہیں جس کا مستقبل قریب میں کوئی چانس بنتا دکھائی نہیں دیتا۔
سیاسی حلقوں میں بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کی رہائی کو کسی پس پردہ ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اب تو پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیمیں بھی یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اب بول کیوں نہیں رہے کیونکہ اس سے پہلے جیل میں ہونے والی عدالتی کارروائیوں کے دوران وہ صحافیوں کے ذریعے باہر بہت سخت پیغام بھیج رہے تھے۔ تاہم گزشتہ ہفتے جب یہ پابندی ختم ہوئی تو وہ دو مرتبہ صحافیوں سے ملے ہیں اور ان کا لب و لہجہ پہلے سے بہت مختلف بتایا جا رہا ہے۔
دوسری طرف خود تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی بیانات کی مہم شروع کر رکھی ہے کہ عمران خان جلد رہا ہو رہے ہیں۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید کسی سطح پر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی مفاہمت ہونے جا رہی ہے
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ’ یہ بات سچ ہے کہ ڈیل تو ہوئی ہے۔ لیکن کیا اس ڈیل میں عمران خان باہر آ رہے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جو لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ یہ اسی طرح کی ڈیل ہے جو علی امین گنڈا پور کے ساتھ موجود ہے۔ اسی کی ایکسٹینشن اب بشری بی بی اور بہنیں ہیں۔ ایک بفر بنا دیا گیا ہے کہ اب ان کا کام ہے کہ وہ عمران خان کو اشتعال انگیزی سے پرہیز کروائیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ ’اور اس کے اثرات بھی اب دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ عمران خان کا کانٹنٹ بدلنا شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ بات سب نوٹ کر رہے ہیں۔ تو اس حد تک ڈیل ہے کہ خیبرپختونخوا میں حکومت چلتی رہے۔ گورنر راج نہ لگے۔ بشریٰ بی بی اپنے گھر پر رہیں اور عمران خان جارحانہ احکامات نہ دیں کیونکہ اس بات کا ثبوت بھی آ چکا ہے کہ پہلے جارحانہ احکامات بھی پورے نہیں ہوئے۔‘
دوسری جانب سینئیر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کے خیال میں ’ابھی تک تو ہم صرف بظاہر ہونے والی باتوں پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب کے بیانات میں قدرے اعتدال اور پھر جو تاثر دیا گیا تھا کہ بشریٰ بی بی لاہور میں محفوظ نہیں ہوں گی وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ وہ پورے اہتمام کے ساتھ وہاں پر موجود ہیں۔ ان کو سکیورٹی بھی دی جارہی ہے۔ تو یہ کڑیاں اس بات سے ملتی ہیں کہ دونوں اطراف سے ایک ایک قدم پیچھے اٹھایا گیا۔‘
انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’اب جزئیات کے بارے میں تو بات نہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن یوں لگ رہا ہے کہ کشیدگی میں کمی آئی ہے۔ اگلے کچھ دنوں میں صورت حال مزید واضح ہوتی چلی جائے گی۔ اگر عمران خان کو مزید ریلیف ملتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کی حکمت عملی میں بھی نرمی آتی ہے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ یہ مشترکہ بندوبست ہے اور دونوں فریق اپنا اپنا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔‘
تحریک انصاف کا قبضہ بشری بی بی کو ملے گا یا علیمہ خان کو؟
خیال رہےکہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی جیل سے رہائی کے بعد پہلے بنی گالہ پہنچی تھیں پھر اس کے بعد چند دن انہوں نے پشاور میں وزیر اعلٰی ہاؤس میں گزارے۔ اب وہ گزشتہ تین روز سے عمران خان کی لاہور میں رہائش گاہ زمان پارک میں قیام پذیر ہیں۔بشریٰ بی بی کے لاہور پہنچتے ہی انہیں پنجاب پولیس کی جانب سے سکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے۔
بشریٰ بی بی کے قریب سجھے جانے والے پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے مطابق ’ بشری بی بی ابھی لاہور میں ہی رہنا چاہتی ہیں۔ چیک اپ کا مسئلہ نہیں ہے ان کی قریبی فیملی کے افراد لاہور میں ہی مقیم ہیں۔ جن میں ان کے بچے شامل ہیں۔ تاہم وہ مستقل کہاں رہنا چاہیں گی اس کے بارے میں وہ ہی فیصلہ کریں گی۔‘