مریم نواز اور ان کی والدہ کلثوم نواز تنقید کی زد میں کیوں آ گئیں؟
وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز اور انکی مرحوم والدہ بیگم کلثوم نواز ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر کپتان کے یوتھیوں کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں اگئی ہیں جسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کا ذکر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی نصابی کتب میں شامل کیا گیا ہے۔ جہاں یوتھیے ان دونوں خواتین کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں وہیں سرکاری حکام وضاحتیں دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے سرکاری نصاب میں صرف مریم اور کلثوم کو ہی شامل نہیں کیا گیا بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی دیگر معروف خواتین کو بھی نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔
آئی ویریفائی پاکستان کی جانب سے کی جانے والے تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگرچہ مریم نواز اور مرحومہ کلثوم نواز کی تصاویر اور کچھ معلومات کو درسی کتاب میں شامل کیا گیا ہے ، لیکن مطالعہ پاکستان کے نصاب میں صرف مریم نواز یا بیگم کلثوم نواز کو ہی شامل نہیں کیا گیا بلکہ اس میں فاطمہ جناح، بے نظیر بھٹو سمیت دیگر نمایاں خواتین بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ ہفتہ کے روز، عمرانڈو رہنما شہباز گل نے ’ایکس‘ پر 36 سیکنڈ کی ویڈیو شیئر کی جس میں دعویٰ کیا تھا کہ مریم نواز اور ان کی والدہ سے متعلق تصاویر اور معلومات دسویں جماعت کی پاکستان اسٹڈیز کے نصاب میں شامل کی جائیں گی۔پوسٹ کے کیپشن میں لکھا گیا ’پاکستان اسٹڈیز میں مریم نواز کے بارے میں بھی سبق پڑھایا جائے گا‘۔ پی ٹی آئی کے دیگر حامیوں کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کے دعوے کیے گئے، جن کولاکھوں ویوز ملے اور ہزاروں بار انھیں رہ ٹوئٹ کیا گیا۔ان پوسٹس میں طنزیہ انداز میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے علاوہ ایک نامعلوم خاتون کی تصاویر کے ساتھ نصابی کتاب کے سرورق کا بھی شیئر کیا گیا۔
علاوہ ازیں، صحافی جنید سلیم نے 17 جنوری کو اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو میں اسی مسئلے پر بات کی، جہاں انہوں نے دسویں جماعت کی نصابی کتاب میں حالیہ تبدیلیوں سے متعلق بتایا۔جنید سلیم نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ’پاکستان کی کامیابی میں خواتین کا کردار‘ کے باب میں اپنا اور اپنی مرحومہ والدہ کا نام شامل کروایا ہے۔صحافی نے سوال اٹھایا کہ اگرنصاب میں نمایاں خواتین کو ہی شامل کرنا مقصود تھا تو سابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی قابل ذکر شخصیات کو کیوں شامل نہیں کیا گیا۔
ان دعوؤں کی صداقت کا تعین کرنے کے لیے ایک فیکٹ چیک شروع کیا گیا تو سامنے آیا کہ پنجاب کے دسویں جماعت کے پاکستان اسٹڈیز کے 2025 کے تازہ ترین نصاب میں فاطمہ جناح، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو، بیگم کلثوم نواز، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، فہمیدہ مرزا، نصرت بھٹو، لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم، بلقیس ایدھی، ارفع کریم، ثمینہ بیگ، شمشاد اختر اور نگار جوہر خان سمیت 11 دیگر خواتین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نصاب میں مریم نواز کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور پر تسلیم کیا گیا، جبکہ دیگر بااثر خواتین کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ان کامیابیوں کو باب 8، صفحہ 163 میں سرکاری اور نجی دونوں اسکولوں میں پڑھائے جانے والے یکساں نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔
ترجمان محکمہ سکول ایجوکیشن پنجاب نورالہدیٰ نے پنجاب کے دسویں جماعت کے نصاب میں مریم نواز اور کلثوم نواز کی تصاویر شامل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح نصرت بھٹو جیسی دیگر بااثر خواتین کے نام شامل کیے گئے ہیں اسی طرح مریم نواز اور کلثوم نواز کے نام اور تصاویر بھی نصاب مین شامل کی گئی ہیں۔ترجمان نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ نظر ثانی شدہ نصابی کتاب فی الحال چھپائی کے مرحلے میں ہے کیوں کہ یہ 2025 کے تعلیمی سال میں نصاب کا حصہ ہوگی۔ ترجمان کے مطابق نئی نصابی کتاب کا آن لائن ورژن موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کتاب کے سرورق کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حقائق کی جانچ پڑتال سے پتا چلتا ہے کہ یہ دعویٰ کہ پنجاب کی نصابی کتاب میں صرف وزیر اعلیٰ مریم نواز اور ان کی والدہ کی معلومات اور تصاویر شامل کی گئی ہیں، گمراہ کن ہے، کیونکہ جہاں نصابی کتان میں ان کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہیں دیگر نمایاں خواتین بھی نصاب کا حصہ ہیں۔