آرمی چیف سے ملاقات کے بعد حکومت اور PTI مذاکرات میں ڈیڈ لاک

حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکراتی عمل کے دوران پس پردہ رابطوں کی تصدیق، بیان بازی اور الزام تراشیوں کے بعد فرنٹ ڈور رابطوں کا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آ رہا ہے ، خصوصاً پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں پر حکومتی ردعمل نے مذاکراتی عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔
مبصرین کے مطابق بلاشبہ حکومت اپوزیشن مذاکراتی عمل کا آغاز سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت کے خاتمہ کیلئے تھا اور فریقین کو بٹھانے کیلئے کسی تیسری پارٹی کا اثر و رسوخ بھی تھا جس کا واحد مقصد سیاسی جمودکو توڑنا اور دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ اہم قومی ایشوز پر سیاسی قوتیں ایک میز پر بیٹھنے کو تیار ہیں ،تاہم حکومت سمجھ رہی ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی مذاکراتی عمل کی بجائے کہیں اور دیکھ رہی ہے وہ ملک میں سیاسی استحکام لانے میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ اب بھی اقتدار کیلئے کسی چور دروازے کی تلاش میں ہے۔مبصرین کے مطابق مذاکراتی عمل پر گہری نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جانب کی کمیٹیاں بااختیار نہیں، انہیں ہر مرحلہ اور ہر نکتہ پر اپنی قیادتوں سے مشاورت کرنا پڑ رہی ہے تحریک انصاف بانی کے بغیر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں اور حکومتی کمیٹی اسٹیبلشمنٹ سے پوچھے بغیر کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکتی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مذاکرات بالواسطہ طور پر بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہو رہے ہیں اور اس تاثر میں حقیقت کیا ہے یہ جلد ظاہر ہو جائے گا۔
تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق حکومت اپوزیشن مذاکرات بظاہر تو ڈانواں ڈول نظر آ رہے ہیں جبکہ حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت ایک دوسرے پر دباؤ برقرار رکھے نظر آ رہے ہیں تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاکراتی عمل ایسے ہی چلتا رہے گا اور کیا اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ نکل پائے گا۔
سلمان غنی کے مطابق یہی سوال اعلیٰ سطح کے حکومتی وسیاسی اور عوامی حلقوں میں بھی زیر بحث ہے اس حوالے سے نواز شریف نےحکومت کو ہدایات دی ہیں کہ مذاکرات چلنے چاہئیں مگر ایسے کسی عمل کا حصہ نہ بنیں جس سے سیاسی سسٹم کمزور ہو، سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی متمنی ہے تاہم لگتا نہیں ہے کہ حکومت کی جانب سے 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر واضح موقف میں کوئی نرمی آ پائے گی
سلمان غنی کے مطابق اب تک کی صورتحال میں ایک دوسرے کے حوالے سے شدید تحفظات اور بیک ڈور اور فرنٹ ڈور رابطوب کی بحث کے باوجود کوئی بھی مذاکراتی عمل سے نکلنے کو تیار نہیں اور اس کی بڑی وجہ کسی تیسری پارٹی کو قرار دیا جا رہا ہے جن کے حوالہ سے تاثر ہے کہ فریقین کسی دباؤ کے باعث مذاکراتی عمل کا حصہ بنے اور آج جو قومی سیاست میں مذاکرات کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے تو اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے اور کہا جاتا ہے کہ مذاکراتی میز پر بیٹھنے سے پہلے بہت کچھ پس پردہ طے ہوچکا ہے۔
9 مئی کے کیسز میں سینکڑوں جعلی ضمانتیں دینے والا فراڈیا کون ہے؟
سلمان غنی کے بقول بلاشبہ پی ٹی ا ٓئی میں عمران خان سمیت بہت سے لوگ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے حامی تھے جنہوں نے اس حوالے سے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم بانی پی ٹی آئی حکومت سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن بالآخر انہیں اگر حکومت کے ساتھ بیٹھنا پڑا تو اس کا مطلب یہ کہ ان پر کسی نہ کسی کا دباؤ تھا۔ سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ بنیادی مسئلہ حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کا ہے اس لئے ان حالات میں ان کا بیٹھنا اور بات چیت کرنا ایک بڑی پیش رفت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ مذاکرات کے بغیر کہانی نہیں چل پائے گی۔ اسی لئے حکومت نے بھی نہ چاہتے ہوئے خود کو مذاکراتی عمل پر تیار کیا۔ اب مذاکرات کی کی کامیابی کی کنجی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اس لئے کہ وہی کچھ دینے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کیلئے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بھی لچک ظاہر کرنا پڑے گی۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے تمام آپشنز استعمال کر کے اس کا نتیجہ دیکھ لیا ہے اب پی ٹی آئی کے لئے سیاسی راستہ صرف لچک کے ذریعہ ہی نکل سکتا ہے، سلمان غنی کے مطابق اب پی ٹی آئی کو جارحانہ طرز عمل سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز اپنانا ہوگا کیونکہ اب وہ کسی مہم جوئی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس کے شرپسندانہ طرز سیاست سے جہاں قومی سیاست اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچا ہے وہیں خود پی ٹی آئی کی اپنی سیاسی طاقت بھی کمزور پڑی ہے۔ اس لئے اب پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل، اپنی لیڈر شپ کیلئے ریلیف اور مقدمات سے نجات کا انحصار ان کے طرز عمل پر ہوگا اور انہیں ان مقاصد کیلئے باہر کی طرف دیکھنے کی بجائے اندر دیکھنا ہوگا کیونکہ اب اگر مذاکراتی عمل میں کسی قسم کا ڈیڈ لاک آیا تو اس کا نقصان صرف پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑے گا۔