پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میڈیا کا گلا کیوں گھونٹا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں پچھلے 75 برسوں میں جو بھی حکومت اقتدار میں آئی اس نے میڈیا کی زبان بندی کے لیے میڈیا مخالف قوانین بنائے۔ افسوس کہ جب یہ جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو میڈیا مخالف قوانین کو ختم کرنے کی باتیں کرتی ہیں مگر جب یہ جماعتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ ایسے ہی قوانین کا سہارا لے کر اپنے ناقد صحافیوں اور میڈیا کو نشانہ بناتی ہیں۔ یہ لوگ اپوزیشن میں مارشل لا کی مخالفت کرتے ہیں لیکن جب حکمران بنتے ہیں تو سویلین مارشل لا لگا کر تحریر اور تقریر پر پابندی لگا دیتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ جس معاشرے ہم لوگ آج زندہ ہیں وہاں صرف انسان نہیں بلکہ کتابیں بھی اُٹھا لی جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھی صحافی اور نامور لکھاری محمد حنیف کی جنرل ضیاء الحق پر کتاب کا اردو ترجمہ آیا تو اُسے اجازت نہ ملی جبکہ انگریزی کتاب کے کئی ایڈیشن آئے۔ یہی حال سنسر شپ کے دور میں بھی ہوتا تھا انگریزی اخبار، رسائل کی سنسر شپ اور اردو اخبار اور رسائل کی سنسر شپ کا انداز مختلف ہوتا۔

انکا کہنا ہے کہ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ کوئی بھی ایسا حکمراں نہیں آیا جس نے ادارے مضبوط کئے ہوں۔ سب نے اپنا اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ سیاسی دوغلی پالیسی کا شکار رہیں۔ مثلاً مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور پی ٹی آئی جب بھی اپوزیشن میں آئیں وقت کے حکمران کے میڈیا مخالف اقدامات کے موقع پر پی ایف یو جے کے احتجاجی کیمپوں میں آکر میڈیا مخالف کالے قوانین کے خاتمہ کا مطالبہ کیا اور جب اقتدار ملا تو اُس سے بھی زیادہ سخت قوانین لا کر ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت اُن قوانین کو برقرار رکھا ۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ میڈیا کو ’’مادر پدر‘‘ آزادی حاصل ہو۔ صحافت تو نام ہی ذمہ داری کا ہے مگر اِس کا فیصلہ کون کرے گا، وہ حکمران یا سرکاری و غیر سرکاری اشرافیہ جنہوں نے عوام سے جینےتک کا حق چھین لیا ہے یا وہ عدلیہ جہاں عوام کو انصاف ملنے میں 20،20 سال لگ جاتے ہیں۔ ’’کالے قوانین‘‘ اُن قوانین کو کہا جاتا ہے جو عوام سے جاننے کا حق چھین لیتے ہیں۔ اگر میڈیا کے ذریعہ اُن کو حکمرانوں کی سیاہ کاریاں بتائی جاتی ہیں، اگر کمزور طبقے کی آواز ایوان تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی آوازوں کو خاموش کرنے کیلئے جو قوانین بنائے جاتے ہیں اُنہی کو کالے قوانین کہا جاتا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ پیکا 2016، پیکا قانون 2025ء اور اُس کے درمیان پیکا 2020ء کے ذریعے پچھلی تین حکومتوں نے لوگوں کی آوازوں کو دبانے کیلئےپرنٹ اور الیکٹرونک کے بعد ڈیجیٹل میڈیا پر قوانین کے ذریعےحملہ کیا اور اب تو گرفتاریوں کی بھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب میں تسلیم کرتا ہوں کہ میڈیا میں بہت سی خامیاں یا خرابیاں ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود اپنے گھر کو درست کرنے کیلئے اقدامات کریں مگر یہ کام ایسے حکمرانوں یا ایوانوں کا نہیں جن کے مینڈیٹ پر ہی سنجیدہ سوالات ہیں۔ حکمرانوں کی فیک نیوز کا منہ بولتا ثبوت تو حال ہی میں شائع ہونے والا ایک ایسا فرنٹ پیج اشتہار ہے جس کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے پی ایف یو جے کا پہلے دن سے یہ موقف رہا ہے کہ وزارت اطلاعات کو ختم کیا جائے جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ختم کر دی گئی ہیں مگر یہاں تو معاملات ہی دوسرے ہیں۔ کئی وزارتیں اور محکمہ ختم کیے جارہے ہیں لیکن اِس کو اُس پول سے باہر کرنےکیلئے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو ایک طرح سے ’’لازمی سروس ایکٹ‘‘میں لےلیا گیا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ نہ تو یہ کسی صحافی کا کام ہےاور نہ ہی کسی میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکومتوں کو گرانے اور بنانے میں سہولت کاری کا کام کرے۔ یہ اہل سیاست کا کام ہے۔ یہ کام تو ’’اُن‘‘ بھائی لوگوں کا بھی نہیں ہے جو پچھلے 76 سال سے یہی کام کر رہے ہیں۔ صحافت اتنی بھی آسان نہیں۔ جتنی ہم نے بنا دی ہے۔ ہر قلم پکڑنے والا یا مائیک تھامنے والا یا گھر میں بیٹھے کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال کرنے والا ضروری نہیں کہ صحافی ہو البتہ اُس کو اپنے تئیں اظہار رائے کا حق ضرور ہوتا ہے مگر یہ فیصلہ، کہ کون صحافت کے زمرے میں آتا ہے کون نہیں، خود میڈیا کو کرنا ہے یہ اختیار حکومتوں یا اشرافیہ کو نہیں دیا جا سکتا۔

Back to top button