امریکہ پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کا راستہ کیوں روک رہا ہے؟

امریکہ کی جانب سے پاکستانی نیوکلیئر بیلسٹک میزائل پروگرام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششوں میں تیزی آ گئی ہے۔ اب پاکستانی بیلسٹک پروگرام سے وابستہ اداروں اور سپلائزر پر اس سال میں تیسری مرتبہ پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ تاہم تشویش ناک بات یہ ہے کہ بھارتی نیوکلیئر میزائل پروگرام پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
امریکہ نے پاکستان کے نیو کلئیر ہتھیاروں سے لیس طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک جن 4 اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں ان میں اس میزائل پروگرام کی نگرانی کرنے والا ایک سرکاری ادارہ بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اعلامیے کے مطابق یہ پابندیاں ان فرموں پر عائد کی جا رہی ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے لیے آلات کی ترسیل میں ملوث ہیں۔
جن چار اداروں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، فیلیئٹس انٹرنیشنل اور راک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔ اس سے پہلے رواں سال ستمبر میں امریکہ نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کچھ کمپنیوں پر پابندیاں عائد کیں تھیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے آلات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
اس سے پہلے اسی برس اپریل میں چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پابندی لگائی گئی تھی جبکہ اکتوبر 2023 میں پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین مذید کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ دسمبر 2021 میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
تاہم پاکستان نے امریکی ایکشن کو بدقسمتی پر مبنی اور ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کا مقصد خطے میں عسکری عدم توازن کو بڑھاوا دینا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام مکمل طور پر مقامی ہے، اس کا انحصار مقامی وسائل اور مہارت پر ہے اس لیے یہ امریکی پابندیوں سے متاثر نہیں ہو گا۔ دفتر خارجہ کا کہنا یے کہ پاکستانی سٹریٹیجک صلاحیتوں میں اضافے کا مقصد ملک کی خود مختاری کا دفاع اور جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنا ہے۔ لہٰذا دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ نجی کاروباری اداروں پر اس طرح کی پابندیاں مایوس کن ہیں۔
دفترِ خارجہ کا کہنا تھا ماضی میں ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے دعووں کے باوجود دوسرے ممالک یعنی انڈیا کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے درکار لائسنس کی شرط ختم کی گئی۔ لہٰذا ایسے دوہرے معیار اور امتیازی سلوک سے نا صرف عدم پھیلاؤ کے مقصد کو ٹھیس پہنچے گی بلکہ خطے اور عالمی امن و سلامتی کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں امریکی خدشات کئی سالوں سے واضح اور مستقل ہیں۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مخالفت امریکی پالیسی کا حصہ رہی ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والا پاکستان کا میزائل پروگرام دراصل کیا ہے؟
پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام میں میڈیم رینج یا درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بلیسٹک میزائل شاہین تھری اور ابابیل شامل ہیں جو ملٹیپل ری انٹر وہیکل Multipe Re-Enter Vehicle میزائل کہلاتے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کے میزائل ہتھیاروں میں یہ سب سے بہترین صلاحتیوں والے میزائل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان نے 2017 میں ابابیل میزائل کا پہلا تجربہ کرنے کے بعد گذشتہ برس 18 اکتوبر 2023 کو بھی زمین سے زمین پر درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل کی ایک نئی قسم کا تجربہ کیا تھا جس کے بعد رواں برس 23 مارچ کو پاکستان ڈے پریڈ کے موقع پر پہلی مرتبہ اس کی نمائش کی گئی۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا میں پہلا ایسا میزائل ہے جو 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مختلف اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ دفاعی ماہرین کا اندازہ ہے کہ ابابیل میزائل تین یا اس سے زائد نیوکلیئر وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایم آر وی میزائل سسٹم ہے جو دشمن کے بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ کو شکست دینے اور بے اثر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس میزائل میں موجود ہر وار ہیڈ ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تاہم اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ میزائل ایسے ہائی ویلیو اہداف، جو بیلسٹک میزائل ڈیفنس شیلڈ سے محفوظ بنائے گئے ہوں، کے خلاف پہلی یا دوسری سٹرائیک کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم دفاعی امور کے ماہر سید محمد علی بتاتے ہیں کہ ایم آر وی میزائل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہدف کے قریب پہنچنے پر ان کے خلاف مخالف سمت میں میزائل ڈیفنس شیلڈ یا بیلسٹک میزائل سسٹم موجود ہو تو وہ انھیں کنفیوژ کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’بالکل ویسے ہی جیسے ایک فاسٹ بالر گیند کو سوئنگ کرتا ہے جس میں وہ بیٹسمین کے ڈیفنس کو توڑنے کے لیے اپنی رفتار کے ساتھ سوئنگ اور سیم پر بھی انحصار کرتا ہے۔‘
پاکستان نے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق امریکی پابندیوں کو متعصبانہ قرار دے دیا
ڈاکٹر منصور کے مطابق ’ابابیل صرف اور صرف انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن امریکہ کو 2021 سے جس میزائل پر تشویش ہو رہی ہے وہ شاہین تھری میزائل ہے جس کی رینج 2740 کلومیٹر ہے۔‘ دراصل ابابیل شاہین تھری میزائل کی اگلی جنریشن ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کو ان میزائلوں پر کیا تشویش ہے۔ ڈاکٹر منصور کہتے ہیں کہ امریکہ کو خدشہ ہے کہ پاکستان اس کے زیادہ سے زیادہ صلاحتیوں والے ورژن پر کام کر رہا ہے۔‘ ابابیل تھری سٹیج میزائل سسٹمز ہیں اور موبائل لانچر والا سسٹم ایک بہت اہم صلاحیت ہے کیونکہ کسی بھی سرپرائز حملے کی صورت میں یہ سسٹم ناصرف بڑی آسانی سے مختلف مقامات پر کیموفلاج کیے جا سکتے ہیں بلکہ انھیں باآسانی ایسی جگہ بھی لے جایا جا سکتا ہے جہاں دشمن کو ان کا پتا نہ چلا سکے۔‘ امریکہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ پاکستان فوجی اور سویلین مقاصد کے لیے اپنا سپیس وہیکل لانچ کر سکتا ہے جس سے اس کے پاس انٹرکونٹینٹل بیلسٹک میزائل فائر کرنے کی صلاحیت آ جائے گی۔