انقلاب کا خواب عمران خان کی قید کو بڑھاتا کیوں جا رہا ہے؟

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے کے بعد فوج کے ہاتھوں حکومت سے فارغ ہونے والے عمران خان جیل میں قید ہونے کے باوجود اقتدار کے سراب کا پیچھا کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی کو بڑھاتے ہی چلے جا رہے ہیں حالانکہ یہ خودکشی کا راستہ ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ قوم نے 1971کے سانحے سے سبق نہیں سیکھا تھا‘ ہم تو مشرقی پاکستان کے سانحہ کو بھی بھول گئے لہٰذا عمران خان کو سیاسی خودکشی کے راستے سے پیچھے ہٹ کر حالات سے سمجھوتہ کرنا چاہیے‘ خان صاحب بے شک ملک کو حقیقی آزادی دلائیں‘ وہ انقلاب بھی لے آئیں لیکن یاد رکھیں کہ اس کے لیے زندہ رہنا اور اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مچھلی پانی سے باہر صرف تڑپ سکتی ہے۔ اگر خان صاحب جدوجہد کے درمیان جیل میں ہی گزر گئے یا انکی پارٹی کو آئینی ترامیم نگل گئیں تو پھر انقلاب کہاں سے آئے گا اور قوم حقیقی آزادی کیسے حاصل کرے گی؟ کھلاڑی جب کھیل ہی نہیں سکے گا تو پھر وہ مین آف دی میچ کیسے بنے گا لہٰذا عمران خان کو چاہیے کہ وہ دنیا کے بجائے خود کو بدلنے کی کوشش کریں‘ حقیقی آزادی تب ملے گی‘ ملک پھر بدلے گا‘ خان کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ امیدوں کے جال میں پھنسے لوگ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان خود کو بدلنے کی بجائے پورے ملک اور پوری دنیا کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ عمران بے شک پاکستان کا ایک مقبول لیڈر ہے‘ اس کی پارٹی نے انتخابی نشان کے بغیر 8 فروری کا الیکشن جیت کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ وہ ملک کے نوجوان طبقے کے ساتھ تمام لیڈروں کے مقابلے میں زیادہ رابطے میں ہے‘ وہ آج بھی کروڑوں لوگوں کی امید ہے اور عوام نے پی ٹی آئی حکومت کی خیبر پختونخواہ میں انتہائی افسوس ناک پرفارمنس کے باوجود اسے تیسری مرتبہ اقتدار دیا ہے۔ عمران کے مقابلے میں تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین کریڈیبلٹی اور عوامی حمایت کھو چکے ہیں‘ آج نواز شریف اور آصف زرداری کہاں کھڑے ہیں اور ایم کیو ایم کی ساکھ کیا ہے، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ آج عمران خان کہاں ہیں؟ سچ یہ ہے کہ موصوف ایک صوبے میں دو تہائی اکثریتی حکومت‘ سب سے بڑے ووٹ بینک اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے باوجود اپنی بیگم صاحبہ سمیت جیل میں بند ہیں جب کہ علی امین گنڈا پور اقتدار انجوائے کر رہے ہیں‘ وزیر اعلیٰ نے سات ماہ کے اقتدار میں صوبے میں تنکا دوہرا نہیں کیا لیکن یہ اس کے باوجود پاڈے بن کر پھر رہے ہیں‘ حالت یہ ہے اتوار کو مالم جبہ میں دس یورپی سفیروں کے قافلے پر بم حملہ ہو گیا‘ پولیس اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے لیکن وزیراعلیٰ پوری صوبائی حکومت کے ساتھ لاہور فتح کر رہے تھے۔

دوسری طرف گوہر خان اور عمر ایوب بھی قومی اسمبلی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عارف علوی اور اسد قیصر مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں مصروف ہیں چناں چہ عمران کو ان سب کا کیا فائدہ ہوا؟ انھیں اس مقبولیت‘ ایک صوبے میں اقتدار اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریت سے کیا ملا؟ کیا عمران خان کی جیل کا فائدہ مولانا فضل الرحمن نہیں اٹھا رہے؟ کیا ان کی بارگیننگ پوزیشن بہتر نہیں ہو رہی اورکیا اس کا فائدہ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری نہیں اٹھا رہے؟ وہ اگر آج وزیراعظم اور صدر ہیں تو اس کی واحد وجہ عمران ہیں اگر عمران ضد نہ کرتے‘ اور باغی نہ بنتے تو آج زرداری صاحب صدر ہوتے اور نہ شہباز شریف وزیراعظم‘ پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی دس دس سیٹوں تک محدود ہو چکی ہوتی چناںچہ سوال یہ ہے کہ ان تمام کمالات کا عمران خان کو کیا فائدہ ہوا؟ ان کی سختیوں میں تو روز بروز اضافہ ہو رہاہے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ عمران خان دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں‘ کیا سیاست کا مقصد اقتدار میں آ کر اپنی پالیسیوں پر عمل کرنا نہیں ہوتا اور اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر اس کا مقصد کیا ہے؟ آپ کو اگر اقتدار میں نہیں آنا‘ آپ نے اگر اپنی پالیسیوں پر عمل نہیں کرنا‘ آپ نے اگر عوام کی حالت نہیں بدلنی تو پھر آپ سیاست کیوں کر رہے ہیں؟ آپ نے اگر ورلڈ کپ یا ٹرافی نہیں لینی تو پھر آپ کھیل کیوں رہے ہیں؟آپ نے اگر جیل ہی میں رہنا ہے تو پھر سیاست کیوں کر رہے ہیں؟چھوڑ دیں اسے! میرا خیال ہے عمران خان کو اب ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیئے‘ انہیں اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے‘ اور یہ جان لینا چاہیے کہ ریاست اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ایک شخص اور ایک جماعت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیں حکومت اگر اپنی آئینی ترامیم پارلیمنٹ سے منظور نہیں کرا سکی تو ریاست نے کیا کیا؟ اس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تبدیلی کر دی‘ ججز کمیٹی میں اب چیف جسٹس اور سینئر ترین جج ہیں اور تیسرے ممبر کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے اور چیف جسٹس نے آدھ گھنٹے میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو کمیٹی میں شامل کرلیا جس کے بعد چیف جسٹس کے دو ووٹ ہو گئے اور جسٹس منصور علی شاہ اکیلے ہو کر فارغ ہو گئے‘ دوسرا اب سپریم کورٹ پرانے کیسز کا فیصلہ پہلے کرے گی جس کے بعد آئینی ترامیم اور فارم 47 کے مقدمات کی باری 2032 میں آئے گی‘ سپیکر قومی اسمبلی نے بھی مخصوص سیٹیں دوبارہ پی ٹی آئی سے چھین لی ہیں‘ سپیکر کے حکم سے قومی اسمبلی میں ایک بار پھر سنی اتحاد کونسل واپس آچکی ہے چناں چہ گورنمنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ہے۔ وہ اب ترامیم بھی پاس کروا لے گی جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید تین سال مل جائیں گے‘ پی ٹی آئی ان ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی لیکن نئے قانون کے مطابق اس پٹیشن کی باری 58 ہزار زیرالتواء کیسز کے بعد آئے گی‘ کیا عمران خان اتنے سال جیل میں گزار لیں گے؟

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود عمران خان آج بھی ریاست کو کمزور سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ ججز کا ساتھ ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔ عمران کا خیال ہے حکومت جوں ہی ترامیمی پیکیج پاس کرائے گی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے آدھے ججز مستعفی ہو جائیں گے اور حکومت دنیا میں منہ چھپاتی پھرے گی‘ حکومت نے اگر جسٹس فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیا‘ اور چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدل دیا تو شاید کچھ ججز واقعی مستعفی ہو جائیں،لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا؟ حکومت نئی لسٹیں تیار کر کے بیٹھی ہے‘ وہ نئے ججز مقرر کر دے گی۔ پی ٹی آئی چند دن ججز بحالی تحریک چلائے گی اور پھر لوگ اسے بھی بھول کر پی ایس ایل کے میچز دیکھنے لگیں گے۔

Back to top button