اسرائیلی دفاعی سسٹم ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام کیوں ہے؟

ایران نے یروشلم سمیت اسرائیل بھر میں ٹریک نہ ہونے والے میزائل داغتے ہوئے اسرائیلی فضاؤں پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کر کے اسرائیل کے فضائی برتری کے دعوؤں کی ہوا نکال دی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق ایران کے مسلسل میزائل حملوں کے بعد اسرائیل کو میزائل دفاعی نظام ’ایرو‘ کی کمی کا سامنا ہے جبکہ مسلسل میزائل حملوں کی وجہ سے اسرائیلی دفاعی سسٹمز نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ جس کے بعد ایران کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنا اسرائیل کیلئے ہرگزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے جس کے بعد اسرائیل نے فوری طور پر امریکہ سے مزید مدد مانگ لی ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیل ایران جنگ کے دوران  جدید ٹیکنالوجی، امریکی اسلحے،فضائی برتری اور خفیہ جاسوسی نیٹ ورک کی وجہ سے 9لاکھ کی آبادی والا چھوٹا سا ملک اسرائیل ایران کو ٹف ٹائم دے رہا ہے تاہم ایران کی جانب سے تابڑ توڑ میزائل حملوں نے اسرائیل کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔ایران کی پاسداران انقلاب نے اسرائیل کے خلاف تازہ حملوں کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے "مقبوضہ علاقوں کی فضاؤں پر مکمل کنٹرول” حاصل کر لیا ہے  صیہونی دفاعی نظام ایران کے میزائل حملوں کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔

تاہم دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے سے قبل ایران کے پاس امریکی اندازوں کے مطابق مشرق وسطی میں بیلسٹک میزائلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود تھا جن کی تعداد تخمینوں کے مطابق دو ہزار سے تین ہزار تک تھی۔تاہم اسرائیل نے حالیہ جنگ کے آغاز میں ہی ان میں سے چند میزائلوں اوران کو تیار کرنے والے کارخانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ایک تہائی ایرانی لانچرز کو تباہ کر چکی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایران نے اسرائیل پر یکے بعد دیگرے میزائلوں کے حملے کر کے اسرائی کے جدید فضائی دفاعی نظام کو مات دے دی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ اسرائیلی حملوں سے ایرانی میزائل پروگرام متاثر ہوا ہے تاہم مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور یہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

مبصرین کے مطابق ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے باوجود ایران کے پاس اب بھی مختصر فاصلے تک مار کرنے والے فضائی دفاعی میزائلوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہیں۔اگرچہ اسرائیل تہران پر فضائی برتری کا دعوی کر رہا ہے تاہم اسے مکمل فتح حاصل نہیں ہوئی ہے کیونکہ ایران کی جانب سے مختصر فاصلے والے میزائلوں کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق ایران نے کئی سال تک غزہ کی پٹی میں حماس جبکہ لبنان میں حزب اللہ کو اسلحہ اور ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔ حالیہ جنگ سے قبل امکان تھا کہ دونوں گروپ ایران کی مدد کیلئے سامنے ضرور آئینگے تاہم گزشتہ دو سال کے دوران اسرائیلی کارروائیوں سے ان دونوں گروپوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ غزہ میں حماس تقریبا تباہ ہو چکی ہے جبکہ حزب اللہ کی طاقت اس حد تک متاثر ہوئی ہے کہ وہ ایران پر اسرائیلی حملے کا جواب دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔دوسری جانب یمن میں موجود حوثی باغی ایران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ اسرائیل پر میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ حوثیوں پر امریکی بمباری کے باوجود انھوں نے متعدد ریپر ڈرون مار گرائے جس کے لیے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل استعمال کیے گئے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ خطے میں مغربی ممالک کی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے کیونکہ عراق میں موجود ایرانی حمایت یافتہ عسکری گروہ خطے میں موجود مغربی فوجی اڈوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔عراق کے دارالحکومت بغداد میں 100 برطانوی فوجی بھی موجود ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے برطانوی وزیر اعظم نے حال ہی میں برطانوی فضائیہ کے ٹائیفون لڑاکا طیارے قبرص بھجوائے ہیں۔اس کے علاوہ بحرین میں امریکی اور برطانوی بحری جہاز موجود ہیں ۔تجزیہ کوروں کے مطابا ایران اسرائیل تنازع جتنا طویل ہو گا اتنا ہی مغربی افواج کے لیے خطرہ بڑھتا جائے گا۔

دفاعی ماہرین کے مطابق اس وقت اسرائیل کو اس تنازع میں برتری حاصل ہے لیکن اس کی مذید عسکری کارروائی کا انحصار امریکہ کی حمایت پر ہو گا۔اسرائیل امریکہ سے سالانہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد لیتا ہے اور امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں سے داغا جانے والا اسلحہ بھی امریکہ سے ہی آیا ہے۔ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم سے داغے جانے والے چند میزائل بھی امریکی ساختہ ہیں۔اس کے علاوہ اسرائیل نے زیرزمین ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے جو بنکر بسٹر بم استعمال کیے وہ بھی زیادہ تر امریکی ساختہ ہیں۔ تاہم دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اسرائیل کو امریکی مدد حاصل بھی رہے تو اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی ملنا نا ممکن ہے۔ اسرائیلی اپنی فضائی طاقت سے ایرانی جوہری پروگرام کو متاثر تو کر سکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کی جانب سے ایرانی حکومت میں تبدیلی کی امید پوری ہونا بھی ناممکن ہے۔ایسے میں اسرائیلی فضائی کارروائیاں خوف، تباہی اور ملبہ تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن 2011 میں لیبیا اور حالیہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل اپنی جارحانہ حکمت عملی سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔

Back to top button