کیا پاکستان جنگ رکوانے کیلئے امریکی ایماء پر کردار ادا کرےگا؟

ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے سلامتی کونسل سمیت ہر پلیٹ فارم پر ایران کی اخلاقی و سفارتی حمایت اور اسرائیل کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں بھی ایران اسرائیل جنگ پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس کی امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ نے بھی صحافیوں کے سامنے تصدیق کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی فیصلہ کن اور تدبرانہ قیادت کی تعریف کرتے ہوئے انہیں خطے میں امن کے لیے ایک مؤثر آواز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور وہ حالیہ کشیدگی سے خوش نہیں ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایران اسرائیل کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے خفیہ سفارتکاری کا موقع مل سکتا ہے۔ جس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی راہ ہموار ہو گی بلکہ پاکستان کا بھی عالمی سطح پر قد کاٹھ مزید بڑھے گا

اس تمام تر صورتحال میں جہاں ایک جانب پاکستان ایران کے ساتھ اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اظہار کر رہا ہے وہیں بعض حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ پاکستان ایران کی کس حد تک مدد کر سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ عسکری تعاون ممکن ہے؟ اور اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟مبصرین کے مطابق موجود حالات میں لگتا نہیں کہ پاکستان اسرائیل اور ایران کے تنازع میں براہ راست کوئی پوزیشن لےگا۔‘ پاکستان ایران کی اخلاقی و سفارتی حمایت تو جاری رکھے گا تاہم کبھی بھی ایران کی کسی قسم کی عسکری مدد کر کے اس تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ پاکستان امن کیلئے کوشاں ہے اور وہ امریکہ کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد جنگ بندی کروا کر ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے بیک ڈور رابطے ضرور کرے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان سلامتی کونسل کے ذریعے بھی کوشش کرے گا کہ جنگ بندی ہو جائے اور ایران کے خلاف ہونے والی کارروائی کو روکا جائے۔

صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق ایران اسرائیل کشیدگی میں پاکستان سفارتی اور سیاسی سطح پر پوزیشن لینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان انسانی بنیادوں پر بھی ایران کی خوب مدد کر رہا ہے۔ جیسا کہ پاکستان نے فضائی حدود کی بندش کے باعث پھنسے ایرانی حجاج کو پاکستان میں لینڈ کرنے اور انھیں زمینی راستے سے ایران واپس جانے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران  امریکہ میں موجودگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ ’جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں موجودگی سےکوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان جو اپنے حق میں بہتر سمجھتا ہے وہ کرتا ہے، تو جنرل عاصم منیربھی امریکہ میں وہی بات کرینگے جو پاکستان کے مفاد میں ہو گی۔‘اس سوال پر کہ کیا یہ جنگ پاکستان تک پھیل سکتی ہے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ اس جنگ کا پاکستان تک پھیلنے کا خطرہ نہیں۔ تاہم یہ جنگ سمندروں میں پھیل سکتی ہے کیونکہ  ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کی تو یقیناً امریکہ اس پر اپنا عسکری ردِ عمل دے گا جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع سے پاکستان کے لیے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے سابق سینیٹر مشاہد حسین سیدکا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں خطہ بالکل اسی طرح عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے جس طرح گذشتہ ماہ پاکستان کے خلاف انڈین جارحیت کی وجہ سے ہوا تھا۔‘ ایران پاکستان کا پڑوسی ہے، اس لیے وہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔‘ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کی حمایت سے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان سیاسی اور سفارتی طور پر ایران کی مکمل حمایت کر رہا ہے جو کہ ایک دوست پڑوسی ملک ہونے کے ناطے بالکل درست اقدام ہے۔ان کا دعویٰ تھا کہ ’ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں جب پاکستان کو انڈیا کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو ایران نے پاکستان کو سٹریٹجک ڈیپتھ فراہم کی تھی اور پی آئی اے کے طیارے اپنے ملک میں کھڑے کیے تھے۔‘’یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے اس معاملے میں ایران کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی طور پر بھرپور حمایت کی اور ایرانی پارلیمنٹ نے بھی اس کو سراہا ہے۔‘
مبصرین کے مطابق ایران اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے پاکستان بہت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ پاکستان ایران اسرائیل کشیدگی کم کرنے کیلئے تو اپنا کردار ضرور ادا کرے گا تاہم اس جنگ میں ایران کو عسکری امداد فراہم کرکے کبھی بھی فریق نہیں بنے گا۔ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے دوران فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کر کے بھی اشارہ دے دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں خطے میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔

Back to top button