بلوچستان میں ریاست کی رٹ خاتمے کی جانب کیوں گامزن ہے ؟

پاکستان میں سب سے زیادہ رقبہ رکھنے والے صوبہ بلوچستان میں ریاست کی رٹ تیزی کے ساتھ خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ دہشت گردی کا شکار بلوچستان میں نظام زندگی معطل ہے، صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی بیشتر شاہراہیں مظاہرین نے بند کی ہوئی ہیں، جبکہ موبائل فون سروسز معطل ہیں۔ بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ تقریباً محصور ہو چکا ہے اور انتظامیہ مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے، جن کی قیادت سابق وزیراعلی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کر رہے ہیں۔اس صورتحال میں ریاست کی حاکمیت کا مکمل طور پر خاتمہ دکھائی دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ اختر مینگل اور دیگر بلوچ قوم پرست رہنما جو کبھی عوام اور ریاست کے درمیان آخری رابطہ سمجھے جاتے تھے، اب ان کا بھی سیاسی عمل پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ اختر مینگل چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور اب حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ سردار اختر مینگل استعفی دینے کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے اور حال ہی میں واپس آئے ہیں، آج کل وہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے نتیجے میں ہونے والی کشیدگی کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ’لانگ مارچ‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس مارچ میں اب کئی دیگر قوم پرست جماعتوں اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی زیادتیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے نے بلوچ نوجوانوں کو شدت پسند گروہوں کی حمایت کی طرف مائل کر دیا ہے انکا کہنا یے کہ یہ رجحان بلوچ قوم پرست جماعتوں کو مکمل طور پر غیر متعلق بنا سکتا ہے اور ایسا ہوا تو ریاست کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔
دوسری جانب اسلام آباد اور راولپنڈی میں فیصلہ سازوں کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں۔ چنانچہ بجائے کہ بلوچستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈا جائے، فیصلہ ساز حلقے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں اپوزیشن کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن نے صوبے کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ٹوٹی پھوٹی صوبائی حکومت جس کی قانونی حیثیت بھی مسلمہ نہیں، ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اصل طاقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو صورت حال کو صرف ’سیکیورٹی ایشو‘ کے طور پر دیکھتی ہے اور دہشت گردی کا حل جوابی دہشت گردی کو سمجھتی ہے۔
بلوچستان کی کشیدہ صورتحال پر سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کی حالیہ لہر ریاست کے کنٹرول کھونے کا ثبوت ہے۔ صوبے کے 20 اضلاع اب عسکریت پسندوں کے حملوں اور بے امنی سے متاثر ہیں۔ تمام اپوزیشن جماعتیں اس وقت سڑکوں پر ہیں اور حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے حالت یہ ہے کہ صوبائی کابینہ کے کچھ وزرا بھاری سیکیورٹی کے باوجود اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے۔ جعفر ایکسپریس نامی مسافر ٹرین کی ہائی جیکنگ اور مسافروں کے قتل عام کے علاوہ صوبے کے مختلف حصوں میں بیک وقت دہشت گرد حملے عسکریت پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ایسے حملوں کا ہونا ممکن نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کیخلاف بغاوت کی پہر بلوچستان کے عوام میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن ایسے گروہوں کو مزید سپورٹ اور بھرتیاں فراہم کرتا ہے۔ بلوچستان میں پچھلے تین برسوں میں 6 خودکش بم دھماکے کرنے والی پڑھی لکھی یونیورسٹی کی طالبات تھیں۔ ان خواتین جنگجوؤں نے بلوچ عسکریت پسندی کو مزید مہلک بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بلوچ قوم پرست خاتون رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو مشعل راہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوان اور تعلیم یافتہ بلوچ مزاحمتی قیادت کی نئی نسل کے ابھرنے سے پرانے سیاستدان غیر متعلق ہو گے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل کی جانب سے ماہ رنگ بلوچ کی تحریک میں شمولیت کا بنیادی مقصد بھی خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کئی دہائیوں سے جاری ریاستی بدانتظامی اور لوگوں کو ان کے بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کرنے کا نتیجہ ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ریاست سے مایوس ہو چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے حقوق سیاسی طریقے سے نہیں بلکہ بندوق اٹھانے سے ہی مل سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو بلوچستان میں پانچویں بلوچ بغاوت کا سامنا ہے۔ اس سے قبل 1948، 59-1958، 63-1962، اور 77-1973 میں چار بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ مگر اس مرتبہ باغی زیادہ طاقتور دکھائی دیتے ہیں اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور جدید مواصلاتی نظام موجود ہے۔
بلوچستان میں آخری بغاوت کے بعد صوبہ نسبتاً مستحکم رہا اور 1988 میں جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست قومی دھارے میں آئے۔ اگرچہ قدرتی گیس کی رائلٹی اور صوبے کے قدرتی وسائل کے حوالے سے ان کے بہت سے مطالبات پورے نہیں ہوئے لیکن جمہوری حکمرانی نے بلوچوں کو سیاسی شرکت کا احساس فراہم کیا۔
افغانستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ڈرون حملوں کا امکان
لیکن بلوچستان میں دوبارہ کشیدگی 2003 میں بڑھنا شروع ہوئی جب مشرف نے صوبے میں تین نئی چھاؤنیوں کے منصوبے کا اعلان کیا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی نے بلوچستان کے عوام میں پہلے سے موجود عدم اطمینان کو مزید ہوا دی۔ بلوچستان میں آج بھی امن و امان کی دیکھ بھال زیادہ تر وفاق کے زیر کنٹرول نیم فوجی دستوں کے پاس ہے۔ اس صورتحال نے معاملہ مزید خراب کر دیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کھڑی ہے اور صوبے کے عوام اس کے ساتھ نہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حالیہ حملے کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ریاست اسے ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لے گی اور وفاقی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی حل تلاش کرنے پر مجبور ہو گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے ایک ”ریاستی“ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کی سربراہی وفاقی وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کمیٹی کے ذریعے بلوچستان میں نہ رکنے والی دہشت گردی کا کوئی سخت گیر حل تلاش کیا جا رہا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ریاست نے ایک مرتبہ پھر بلوچ قوم پرستوں کو بندوق کے زور پر زیر کرنے کی کوشش کی تو اس سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گمبھیر ہو جائے گا۔