عمران کو الیکشن دھاندلی کا رونا دھونا اب ختم کیوں کر دینا چاہیے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ لمبی لمبی چھلانگیں لگا کر انقلاب کی باتیں کرنا یا ایک رات میں سب کچھ بدلنے کے دعوے سننے میں تو اچھے لگتے ہیں لیکن یہ قابل عمل نہیں ہوتے۔ وجہ یہ ہے کہ منزل ایک ایک قدم چل کر ہی حاصل ہوتی ہے، اگر ہم سمت کا تعین کرتے ہوئے ایک ایک قدم آگے نہیں بڑھیں گے تو راستہ کھوٹا ہونا شروع ہو جائے گا اور منزل دور تر ہو جائے گی۔ لیکن ہم جیسے ہی سمت طے کریں گے، ہمارا سفر کٹنا شروع ہو جائے گا۔ لہذا سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ماضی دفن کرتے ہوئے 8 فروری کے الیکشن میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا رونا دھونا ختم کر کے اب آگے بڑھنا ہو گا۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ زوال زدہ معاشروں میں سیاسی اور مذہبی تقسیم شدید اور گہری ہوتی ہے۔ ان معاشروں میں محبت اور نفرت بھی انتہاؤں کو چھوتی ہیں۔ اعتدال جاتا رہتا ہے عقل کا استعمال عنقا ہو جاتا ہے۔ محبت اور سیاست یکسر مختلف میدان ہیں لیکن، ان معاشروں میں مخالف کو رقیب اور اپنے لیڈر کو محبوب سمجھا جاتا ہے۔ یوں انہیں اپنے رقیب میں دنیا کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی اور اپنے محبوب میں دنیا کی کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ یہ دونوں رویے بے اعتدالی، شدید جانبداری اور انتہا کی جذباتیت کے عکاس ہیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 8 فروری کے دن ہی کو دیکھ لیں۔ شہباز حکومت اپنی ایک سالہ کارکردگی کی سالگرہ منا رہی تھی، اور تمام اخبارات انکے ایک سالہ کارناموں سے بھرے پڑے تھے، لیکن دوسری طرف تحریک انصاف کے دوست 8 فروری کے روز الیکشن 2024 میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا سوگ منا رہے تھے۔ گویا حکومت اور اپوزیشن دونوں ابھی تک ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ نہ خود ماضی سے نکل رہے ہیں اور نہ ہی ملک کو ماضی سے نکلنے دے رہے ہیں۔ سینئر صحافی کے بقول مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ نہ تو فوج اور نہ ہی نگران حکومت 8 فروری کو انتخابات کروانا چاہتے تھے کیونکہ انہیں یہ رسک نظر آ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے تحریک انصاف دباؤ کو توڑ کر فتح حاصل کر لے۔ ایسے میں تین اشخاص یا طبقات نے الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنایا۔ 2024 میں تمام تر مخالفت کے باوجود الیکشن کروانے کا سب سے زیادہ کریڈٹ تو آج کے نام نہاد ’’ولن‘‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاتا ہے جو سنگ باری سہتے سہتے آج گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں، لیکن 8 فروری کے الیکشن کے انعقاد کے سب سے بڑے ہیرو وہی تھے۔
2024 میں الیکشن کروانے کا متمنی دوسرا طبقہ پاکستان کے دوست اور خیر خواہ ممالک اور ان کے سفارتکاروں پر مشتمل تھا جس کی تمنا تھی کہ ہمارا جمہوریت کی طرف سفر شروع ہو، چاہے مکمل جمہوریت نہ سہی، ایک قدم ہی سہی لیکن آگے بڑھا جائے، ایک سپر پاور کے سفارتکار نے طاقتور حلقوں کو جو مشورہ دیا وہ ہم صحافیوں کو بھی بتایا، مشورہ یہ تھا کہ الیکشن ضرور کرواؤ چاہے جیسے بھی ہوں۔ میری بھی یہی رائے تھی کہ الیکشن ہر صورت ہونے چاہئیں کہ کیونکہ اس سے سیاسی حبس ختم ہوگا، جمہوریت کا نیا سفر شروع ہو گا اور نئی راہیں کھلیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم معاشرہ تو ابھی سقوط ڈھاکہ، سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ سے نہیں نکل سکا، یہ 8 فروری کے سوگ سے کیسے نکلے گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرنا یو گی۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا ہوا پتھر اس کے کناروں کے اندر ہی تلاطم پیدا کر کے اسکی طاقت ختم دیتا ہے۔ آج کی کوئی بھی نصیحت اس پتھر کی طرح ہو گئی ہے جو چند لہریں پیدا کر کے پھر ابدی نیند سو جاتا ہے اور ٹھہرا ہوا پانی اسی طرح حال مست پر رکا رہتا ہے۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں سوال یہ ہے کہ 8 فروری کے روز دھاندلی ہوئی یا نہیں؟ دھاندلی صرف پنجاب میں ہوئی یا خیبر پختونخوا میں ہوئی؟ کتنی دھاندلی ہوئی؟ یہ سارے سوالات ذہنوں میں کلبلاتے ہیں مگر 8 فروری 2024 کے الیکشن سے اگر تحریک انصاف کو مرکز میں اقتدار نہیں ملا تو پختونخوا میں تو ملا، 8 فروری سے پہلے تو وہ صرف اور صرف اپوزیشن میں تھی، اب پی ٹی آئی مرکز میں بھی اپوزیشن کا سرکاری درجہ حاصل کر چکی ہے، اس کے لیڈر آف دی اپوزیشن کو سرکاری مراعات میسر ہیں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایجنڈا ان کے صلاح مشورے سے ترتیب پاتا ہے، وہ موجودہ ریاستی نظام کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ایسے میں ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلے والا سلوک ہوتا ہو مگر کوئی ان کی رشتہ داری سے انکار تو نہیں کر پاتا۔ حکومت اور فوج بھی ان کی اس حیثیت کو ماننے پر مجبور ہیں، سیکورٹی کا کوئی معاملہ ہو تو ان کے نمائندے بھی اجلاس میں موجود ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی آئیڈیل صورتحال نہ ہو مگر پھر بھی یہ سب کچھ 8 فروری کے ’’دھاندلی زدہ‘‘الیکشن سے ہی ممکن ہوا ہے، گویا 8 فروری کے بعد کی صورتحال 8 فروری سے پہلے کی صورتحال سے کہیں بہتر ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ دوسری طرف شہباز حکومت 8 فروری کو سالگرہ کے طور پر منا رہی ہے۔ اپنی ایک سالہ کارکردگی کو آج وہ ایک جشن کے طور پر منا رہی ہے اور درست دعوے کر رہی ہے کہ ملک کی معاشی حالت سنبھلی ہے۔ اپنی ایک سالہ کامیابی کا جشن منانا شہباز حکومت کا پہلا سیاسی قدم ہے وگرنہ تو وہ سیاست کو بھول کر حکومتی راہداریوں کی بھول بھلیوں میں کھو چکی تھی حالانکہ اسے جو حکومت ملی ہوئی ہے اس کی وجہ صرف اور صرف سیاست ہے۔ حکومتیں تو ایک سراب ہوتی ہے جبکہ سیاست ایک حقیقت ہے۔ عوام کو بھول کر یا بھلا کر جو بھی حکومت کی جائے اس کی بنیادیں کمزور ہی رہتی ہیں۔ 8 فروری سے آگے چلنے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ سبق یاد کریں کہ یہ دونوں جمہوریت کی گاڑی میں سوار ہیں اور دونوں اسی گاڑی کے پہیے بھی ہیں، اگر ایک پہیہ صحیح نہ چلا تو گاڑی آگے نہیں چل سکے گی۔ میرا مشورہ یے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات ناکام ہونے کے باوجود مذاکراتی عمل ختم نہ کیا جائے، تحریک انصاف کو جلسے کرنے کا حق حاصل ہے لیکن شہروں کو بند کرنے کا اسے کوئی حق نہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی آزادی رائے اور آزادی اظہار پر پابندیاں لگا کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار رہی ہے، یہ سب کچھ ان کے نامہ اعمال میں لکھا جا رہا ہے جس کا اسے آنے والے کل میں حساب دینا پڑیگا۔
کیا فوجی اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ سے ورکنگ ریلیشن شپ بنانا چاہتی ہے؟
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ حال ہی میں ایک ادارے نے ایک نیا سروے کیا ہے جس میں 8 فروری کے ایک سال بعد کے سیاسی رجحانات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سروے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ آج بھی عمران خان بطور شخصیت سب سے پاپولر ہیں، نواز شریف دوسرے نمبر پر ہیں مگر اس سروے میں یہ حیران کن بات بھی سامنے آئی ہے کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی پہلے نمبر پر ہے اور دوسرے نمبر پر سندھ حکومت کی کارکردگی ہے جو 12 پوائنٹ کم ہے۔ خیبر پختونخوا کا نمبر اس سے بھی پیچھے ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فوج کی پنجاب میں مداخلت سب سے کم ہے سب سے زیادہ مرکز میں اور پھر باقی صوبوں میں ہے۔ ذرائع کے مطابق شاید اسکی وجہ پنجاب میں میرٹ اور کارکردگی کا شاندار ہونا ہے۔ پنجاب کو کابینہ سازی اور منصوبہ بندی میں مکمل فری ہینڈ ملا ہوا ہے۔ اعتراض کرنے والے یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ پنجاب حکومت نے 80 نئے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جنکو پورا کرنا مشکل ہو گا، لیکن پنجاب کو اگلے سال 1100 ارب کی خطیر رقم حاصل ہو گی لہذا اگر پنجاب کو اتنا بڑا بجٹ میسر ہو گا تو پھر سو منصوبے بھی مکمل ہو سکتے ہیں۔