کیا پاکستان اور انڈیا تباہ کن ایٹمی جنگ سے بچے رہیں گے یا نہیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت تقریباً ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ کر واپس ہوئے ہیں،  پاک بھارت جنگ کیا تباہی لا سکتی تھی اس کا جواب صرف وہ جاپانی عوام دے سکتے ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں امریکہ کی جانب سے گرائی جانے والے دو ایٹم بموں کی تباہی کا سامنا کیا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ مئی 1998 میں جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو جاپان کے ایک وفد نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا۔ اس وفد میں کوئی نوجوان نہیں تھا بلکہ وہ لوگ اسکا حصہ تھے جن کی آنکھوں کے سامنے لاکھوں افراد مارے گئے۔ اُن میں سے ایک خاتون نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم نے دونوں ملکوں کی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ ایٹمی جنگ ناقابل یقین تباہی لا سکتی ہے۔ میں خود بھی جنگ سے متاثر ہوئی اور اپنے شہر کو بھی زمین بوس ہوتے دیکھا‘‘۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس مرتبہ پاکستان اور بھارت بال بال ایٹمی جنگ سے بچے ہیں جس کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ ہیں۔ ٹرمپ نے بھی اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ لاکھوں افراد کی موت کا باعث بن سکتی تھی۔ لیکن جنگ ابھی ٹلی ہے، ختم نہیں ہوئی، اس لئے پاکستان اور بھارت کے مابین بامعنی اور بامقصد مذاکرات جتنی جلدی شروع ہوں اُتنا ہی بہتر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں دنوں اور ہفتوں سے زیادہ نہیں چلیں تاہم تنازعات دہائیوں سے موجود ہیں جس نے صرف اور صرف انتہا پسندی کو فروغ دیا جبکہ دونوں ملکوں کی اکثریت آج تعلیم، صحت، بے روزگاری سے متاثر ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ سوال اب بھی حل طلب ہے کہ پچھلے 20 برس میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی واقعات نے جنگی صورتحال پیدا کی مگر جنگ نہیں ہوئی۔ کارگل جنگ کے بعد مذاکرات بھی ہوئے اور بات آگے بھی بڑھی۔ نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور 2098 کے بمبئی حملوں کے بعد بھی پاک بھارت بات چیت جاری رہی، اس دوران انڈیا مسلسل پاکستان پر الزام لگاتا رہا اور اسلام آباد ان الزامات کی تردید کرتا رہا۔ بہت سے ایسے اقدامات بھی ہوئے جسکی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہمارے 80 ہزار سے زائد شہری دو افغان جنگوں کے بعد دہشت گردی کیخلاف جنگ کا شکار ہوئے۔

پاکستان میں جہادی تنظیموں کی وجہ سے ہم ایسی جنگوں کا حصہ بن گئے جو ہماری تھی ہی نہیں، مگر جب ہمارے بچے دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تو ایک بڑا فوجی آپریشن ہوا، یہ جنگ تاحال جاری ہے۔ دوسری جانب پہلگام کے واقعہ کے بعد دنیا ثبوت مانگتی رہی بھارت انکار کرتا رہا، پھر بھارت نے پاکستان کو الزام دیتے ہوئے جنگ چھیڑ دی۔ انکا کہنا ہے کہ مودی سیاسی طور پر کمزور ہوتے جارہے ہیں اور گو کہ ابھی الیکشن میں بڑا وقت ہے لیکن بی جے پی کی سیاست پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں، خاص طور پر سیکولرازم کو ختم کرنے کے حوالے سے ۔ چنانچہ ایک بار پھر ’پاکستان مخالف‘ ماحول بنایا جا رہا ہے اور کسی مودی پلس کی تلاش کی جا رہی ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں سیاست اور قیادت کا بحران رہا ہے۔ بات پاکستان کی ہو، بھارت کی یا بنگلہ دیش کی یہاں تک کے سری لنکا بھی دیکھ لیں ’قائدانہ‘ صلاحیت کے حامل رہنما نظر نہیں آ رہے۔ پاک بھارت کی 1947ء کے بعد سے کشیدگی آج تک برقرار ہے جس کی ایک بڑی وجہ ’مسئلہ کشمیر‘ ہے۔ بات بہت سادہ ہے کہ کشمیری پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، انڈیا کیساتھ یا آزاد حیثیت میں۔بھارت ہی کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لے کر گیا تھا، ایسے میں وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف کرے تو عجیب لگتا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کشمیریوں کی سات نسلیں تباہ ہو گئیں ہم نے بھی چار جنگیں لڑ لیں یہاں تک کہ ایٹمی طاقت بھی بن گئے۔ پاکستان میں تو سیاسی عدم استحکام کی ایک تاریخ ہے اسلئے بھی شاید حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ قائدانہ صلاحیت رکھنے والا لیڈر نہ مل سکا۔ مگر وہ بھی 1947ء کے بعد پیدا ہونیوالے سیاستدان نہیں تھے۔ البتہ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے سیاستدانوں میں ضرور شامل ہیں۔ ان میں بہت سی صلاحیتیں ہیں مگر ایک تو فقج نے انہیں چلنے نہیں دیا اور دوسرا انہیں شہید کروا دیا گیا، لہٰذا ملک کے آگے جانے کا راستہ مسدود ہو چکا ہے اور ’قیادت‘ کا بحران تاحال برقرار ہے۔

انکا کہنا  ہے کہ پچھلے ہفتے یہ خطہ ’ایٹمی جنگ‘ کے دہانے پر تھا اور شاید اب بھی ہے۔ بھارت کی سیاست اور مزاج میں جو تبدیلی پچھلے 20 سال میں آئی ہے وہ وہاں کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ ’جمہوریت‘ سیاست میں رواداری لاتی ہے، مزاج میں مثبت تبدیلی لاتی ہے مگر اس سب کے باوجود کہ وہاں جمہوریت کبھی ڈی ریل نہیں ہوئی، کبھی آئین معطل نہیں رہا نہ ہی مارشل لا لگا ماسوائے ایمرجنسی کے، میڈیا آزاد رہا ایسے میں نریندر مودی جیسے انتہا پسند سوچ رکھنے والے کا وزیراعظم بننا خودگاندھی کے فلسفہ کی نفی ہے۔ اب یہ مودی کا بھارت، مودی کا میڈیا یہاں تک کہ مودی کا فلمی اور ثقافتی بیانیہ ہے جہاں جاوید اختر جیسے لوگ بھی ’انتہا پسند‘ بھارت کو پسند کر رہے ہیں۔

اس سب میں ہمارے لئے سبق صرف ایک ہے انتہا پسندی کو ختم کریں، جمہوریت اور آئین کو مضبوط کریں ہم نے کبھی پاکستان میں انتہا پسند جماعت کو برسراقتدار آتے نہیں دیکھا، سیاسی استحکام آئے گا تو ہی معاشی استحکام آئے گا۔

Back to top button