کیا بطور وزیراعظم بھی شہباز کامیاب ہو پائیں گے؟

عمران خان کی برطرفی کے نتیجے میں شہباز شریف بالآخر وزیراعظم تو بن گئے لیکن
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ عہدہ ان کے لئے پھولوں کی سیج سے زیادہ کانٹوں کا تاج ثابت ہوگا
چونکہ انہیں ملک کو موجودہ معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے سنگین چیلنجز درپیش ہوں گے۔ شہباز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج موجودہ ابتر معاشی صورتحال کو بہتر بنانا ہے جسکے ذمہ دار عمران خان ابھی سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ نئی حکومت اسی بحران کے گرداب میں غرق ہوجائے گی۔
دوسرا بڑا چیلنج مہنگائی اور غربت کی چکی میں پسنے والے عوام کی امیدوں پر پورا اترنا ہے جس کے لیے حکومت کو نہ صرف مہنگائی کم کرنا ہوگی بلکہ لوگوں کو فوری ریلیف دینے کا منصوبہ بھی بنانا یو گا۔ شہباز شریف کے لئے بطور وزیراعظم تیسرا بڑا چیلنج اپنی اتحادی جماعتوں کو راضی رکھنا ہو گا جن میں سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دراصل شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانے میں مرکزی کردار سابق صدر آصف علی زرداری کا ہے جنہوں نے انگلی پکڑ کر اور مسلسل زور لگا کر سابق وزیر اعلی پنجاب کو اب وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچا دیا ہے۔
زرداری پچھلے دو برس سے ‘اتحاد میں برکت ہے’ کا فارمولہ دے رہے تھے لیکن نواز لیگ کی قیادت اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس دوران ان کی کوششوں سے اپوزیشن کا پی ڈی ایم اتحاد بھی بن گیا لیکن زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا جس کی بنیادی وجہ نواز لیگ کا اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مطالبہ تھا، دوسری جانب پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے اندر رہ کر لڑائی لڑنا چاہیئے اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہیئے۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کا کا ‘اتحاد میں برکت’والا موقف درست ثابت ہوا۔
جب پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت کے مابین عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو آصف زرداری نے اپنے ذمے سب سے مشکل ٹاسک لیا جس کی کامیابی اور ناکامی کا مطلب تحریک کی کامیابی یا ناکامی تھا۔ یہ ٹاسک عمران خان کی اتحادی جماعتوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملانا تھا۔
جن اتحادی جماعتوں پر کام کیا گیا ان میں ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی اور قاف لیگ شامل تھے۔ اس دوران آصف زرداری نے گجرات کے چوہدریوں اور شریف خاندان کے مابین دوریاں ختم کروانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا، لیکن جب تمام معاملات طے ہو گئے تو ضرورت سے ذیادہ سیانا بننے کے چکر میں پرویز الہی پشاور والے فیض کے جھانسے میں آ گے اور اپوزیشن کو دھوکہ دے دیا جس کا نتیجہ اب وہ بھگت رہے ہیں۔
تاہم اسکے باوجود آصف زرداری قاف لیگ کے دو اراکین قومی اسمبلی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہے جن میں چودھری شجاعت کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین اور طارق بشیرچیمہ شامل ہیں۔ اسکے بعد انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کو بھی حزب اختلاف کا ہمنوا بن لیا اور پھر اپنی دیرینہ مخالف ایم کیو ایم کو بھی رام کر لیا۔ یوں عمران خان کی فراغت اور شہباز شریف کی وزارت عظمی کا راستہ ہموار ہو گیا۔
اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شہباز شریف کی وزارت عظمی پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے۔ ایسے میں شہباز کے لیے اہم ترین ٹاسک پیپلز پارٹی کو ساتھ رکھنا ہو گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا اتحاد برقرار رکھنے کے لئے لیے بہترین فارمولا یہ ہوگا کہ آصف علی زرداری کو اگلا صدر پاکستان بنا دیا جائے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ملک کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنا ہے اور آگے لے کر جانا ہے تو نہ صرف اب بلکہ اگلا الیکشن کے بعد بھی مل جل کر حکومت تشکیل دی جائے تاکہ اتحاد کی فضا قائم رہے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا دہائیوں پرانا سلسلہ ختم ہو پائے۔
اس حوالے سے سب سے بھاری ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف پر عائد ہوگی۔ لہذا اتفاق قائم رکھنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا خصوصا جب یہ عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نواز کا مزاحمتی دھڑا اب بھی اکیلے حکومت کرنے کا قائل ہے اور پیپلز پارٹی بطور اتحادی اس کے لیے قابل قبول نہیں۔ یاد رہے کہ شہباز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں جو اس مزاحمتی دھڑے کے سربراہ ہیں۔ نواز شریف کو ان کے عہدے سے 2017ء میں ہٹا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں دو سال تک جیل میں رہنے کے بعد وہ علاج کرانے کے مقصد سے برطانیہ گئے تھے اور ابھی تک وہیں رہائش پذیر ہیں۔ سیاسی حلقوں میں اب عمومی تاثر یہی ہے کہ اگلے کچھ برس تک شہباز شریف ہی پارٹی کی قیادت کریں گے اور مفاہمت سے معاملات آگے بڑھائیں گے۔ دوسری جانب پنجاب میں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف وزیر اعلی بننے جارہے ہیں، لہذا یہ پاکستانی تاریخ میں پہلا موقع ہو گا کہ باپ اور بیٹا وزیراعظم اور وزیر اعلی پنجاب ہوں۔
یاد رہے کہ ستر سالہ شہباز شریف کو وراثت میں اپنے خاندان کی سٹیل مل ملی تھی۔ پہلی مرتبہ 1988ء میں وہ صوبائی انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر انہوں نے کئی بڑے تعمیراتی منصوبے ممکمل کیے۔ لاہور میں پہلی میٹرو بس سروس بھی انہوں نے ہی متعارف کرائی تھی۔ لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں صحت، زرعی اصلاحات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے تھے۔
اپنے بڑے بھائی کی طرح شہباز شریف کو بھی مالی بد عنوانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ دسمبر 2019 میں ملک کے قومی احتساب بیورو نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی قریب دو درجن املاک ضبط کر لی تھیں۔ ان پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ ستمبر 2020ء میں شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن چھ ماہ بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔ ان کے خلاف یہ مقدمہ اب بھی زیر سماعت ہے۔
شہبازشریف کی 3 رہائشگاہیں وزیراعظم ہائوس قرار، توقیرشاہ پرنسپل سیکرٹری تعینات
نواز شریف کے برعکس، جن کے پاکستان کی طاقت ور فوج کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے، شہباز شریف کا رویہ قدرے لچک دار ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ معاہدے کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اسلام آباد کے سیاسی ایوانوں اور راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان تعاون کے حامی ہیں۔ اپنی کئی شادیوں کی وجہ سے اسکینڈلز اور مالی بدعنوانی کے الزامات کے باوجود شہباز شریف اس وقت ایک متحرک سیاستدان ہیں جو آصف زرداری کی طرف مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ہیں۔
دیگر چیلنجز کے علاوہ شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی پر تشدد کارروائیوں سے نمٹنے جیسے بڑے چینلجز کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔