کیا فوج سانحہ 9 مئی کے منصوبہ ساز کو معاف کردے گی ؟

9 مئی 2023 کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تحریک انصاف کے بانی عمران خان آج بھی ان افسوس ناک واقعات کی مذمت کرنے کو تیار نہیں، موصوف اپنے دو برس پہلے والے بیانیے پر قائم ہے لیکن اس کے باوجود شدت سے چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے انہیں رہا کر دے۔ کیا کوئی ذی شعور اور ہوش و حواس رکھنے والا شخص ایسا سوچ سکتا ہے؟
معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جو تمام ہوچکا۔ آج پی ٹی آئی کے بانی سے 9؍مئی کی معافی کا تقاضا یا سنجیدہ، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی توقع رکھنا، جلتے بلتے ریگزاروں میں لالہ وگُل کھلانے کی لاحاصل کوشش کے مترادف ہے۔ پے درپے بلنڈرز کی ماری ہوئی پی ٹی آئی کی قیادت کو اب اپنے اعضا اور اعصاب پر قابو نہیں رہا۔ یہ کیفیت اُسے کہاں لے جائے گی؟ یہ پیش بینی محال ہے۔
عرفان صدیقی کے بقول معافی دو باتوں سے مشروط ہوتی ہے۔ پہلی ’اعتراف‘ اور دوسری ’تلافی‘۔ اعتراف، معافی سے پہلے کا مرحلہ ہے جب کوئی فَرد صدقِ دِل سے تسلیم کرتا ہے کہ ہاں واقعی مجھ سے غلطی کا ارتکاب ہوا ہے۔ اس اعتراف کے بعد لازم ٹھہرتا ہے کہ بیانیہ بازی اور جواز تراشی کی آلائش سے پاک واضح معافی مانگی جائے۔ معافی کے بعد ’تلافی‘ کا مرحلہ آتا ہے جسکا تقاضا ہے کہ تائب ہو جانے والا اپنی غلطی کے سبب قوم و ملک کو لگنے والے زخموں کی مرہم کاری کرے اور خود کو قانون کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یہ سب کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ ’اعتراف، معافی اور تلافی‘ کی مثلث کو دیکھیں تو اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عمران کے قبل از 9 ؍مئی اور بعداز 9 ؍مئی کے رویّوں پر نگاہ ڈالی جائے تو آج دو سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی ہوش مند شخص یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتا کہ موصوف کو اپنے کئے پر رتی بھر پشیمانی، ندامت یا پچھتاوا ہے۔ اِس فتنہ گری کے دو دِن بعد، 11 مئی کو 2023 کو وہ اپنے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے، مرسڈیز میں سوار، ججوں کیلئے مخصوص دروازے سے گزرتے، جسٹس عمرعطا بندیال کی عدالت میں پہنچے تو ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر اُن کا استقبال کیا گیا۔ ابھی بھسم کردی جانیوالی دفاعی تنصیبات سے دھواں اُٹھ رہا تھا جب عالی مرتبت چیف جسٹس نے حملوں کے ملزم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ پولیس لائنز گیسٹ ہائوس میں رات گزاریں۔ گپ شپ لگائیں۔ سوجائیں اور صبح اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوجائیں۔ آپ خاندان کے چھ ارکان بھی ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ عدالت چاہتی ہے کہ آپ خود ملک میں فسادات کی مذمت کریں۔‘‘
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے فراخ دِل عدلیہ کی تمام نوازشات سے فائدہ اٹھایا لیکن 9 مئی کے حملوں کی مذمّت نہ کی۔ 9 مئی پر عمران خان کا پہلا بے ساختہ ردّعمل یہ جُملہ تھا کہ ’’اگر رینجرز مجھے اِس طرح گرفتار کریں گے تو عوامی ردّعمل بھی انہی کے خلاف ہوگا۔‘‘ اس کے چند روز بعد انہوں نے یہ بیانیہ اپنا لیا کہ 9 مئی کے حملے فوج کا اپنا تیار کردہ ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا ۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کے قائدین آج تک یہی بیانیہ لئے پھرتے ہیں۔ کچھ روز پہلے بیرسٹر گوہر نے 9 مئی کو غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو ہوگیا سو ہوگیا، اب آگے بڑھنے کی بات کریں۔ اِس پر سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص نے فوری ردّعمل دیا اور ارشاد فرمایا کہ ’’ہمارا 9 مئی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ فوج کا ’فالس فلیگ آپریشن‘ تھا جو ہمارے سرتھوپ دیاگیا۔‘‘
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ معروف ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے مرکزی راہنما اسد قیصر نے دبنگ لہجے میں یہی موقف دہرایا۔ سو کہاں کا اعتراف، کون سی معافی اور کیسی تلافی؟
9 ؍مئی سے پہلے بھی 9 ؍مئی جیسے کئی سرکس لگ چکے تھے۔ توشہ خانہ کیس میں عدالت سے مسلسل غیرحاضر اور طلبی کے درجنوں نوٹسز کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تو اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے عمران کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے۔ اسلام آباد پولیس کی ٹیم وارنٹ لئے لاہور پہنچی۔ مقامی پولیس کی معاونت سے، ملزم کی گرفتاری کیلئے زمان پاک کا رُخ کیا تو پی ٹی آئی کارکنوں کے جتھے بارود خانہ بنے بیٹھے تھے۔ عین اُس وقت عمران نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا اور کہا کہ ’’پولیس مجھے گرفتار کرنے کیلئے باہر آ گئی ہے۔ ا نکا خیال ہے کہ عمران خان جیل میں چلا جائے گا تو قوم سو جائے گی۔آپ نے اس بات کو غلط ثابت کرنا ہے۔ آپ نے اپنے حقوق اور حقیقی آزادی کیلئے جدوجہد کرنی ہے اور باہر نکلنا ہے۔ اگر میں جیل چلا جاتا ہوں تو بھی آپ نے ثابت کرنا ہے کہ میرے کے بغیر بھی میری قوم جدوجہد کرے گی۔‘‘ اِس پیغام نے کارکنوں کی رگوں میں چنگاریاں بھر دیں۔ وہ پولیس پر ٹوٹ پڑے۔ لاٹھیوں، پتھروں، غلیلوں اور پٹرول بموں سے لیس سپاہ نے ایسا حصار کھینچا کہ پولیس ملزم کی رہائش گاہ میں داخل نہ ہو سکی۔ کئی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نذرِآتش کر دیاگیا۔
عرفان صدیقی سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ بھی فوج کا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا؟ کیا پولیس پر حملہ کرنیوالے بلوائی دراصل فوجی تھے؟ کیا آتشیں وڈیو بیان آئی ایس پی آر نے جاری کیا تھا؟’معرکۂِ زمان پارک‘ کے چار دِن بعد ایسا ہی میدانِ کارزار، اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے سجا۔ خان ایک بھاری بھرکم قافلہ لئے توشہ خانہ کیس میں حاضری کیلئے اسلام آباد آئے۔ پہلے تو عمائدین اور وکلا نے واویلا کیا کہ ایف8 کچہری میں بہت بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے لہذا خان صاحب سیشن کورٹ میں پیشی کیلئے وہاں نہیں آسکتے۔ چنانچہ ملزم کی دلداری کیلئے عدالت فوری طور پر جوڈیشل کمپلیکس منتقل کر دی گئی۔ خان صاحب نے کہاکہ ’’میری جان کو خطرہ ہے، میں گاڑی سے نیچے نہیں اتروں گا۔‘‘ سینکڑوں کارکن نعرے لگاتے، گالیوں کی بوچھاڑ کرتے، گاڑی کے گرد جمع رہے۔ ناچار عدالتی اہل کار حاضری رجسٹر لے کر گاڑی میں گیا جہاں ملزم نے حاضری لگائی۔ بپھرے ہجوم میں سے جانے کون یہ رجسٹر بھی اُڑا لے گیا۔ اس معرکے میں نو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ایک پولیس چیک پوسٹ، درجنوں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو جلا دیاگیا۔ کیا 18 مارچ کی یہ غارت گری بھی فوج کا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا؟
اسی طرح کا ایک تماشا 27 مارچ کو بھی لگا۔ اب کے بھی عمران خان ایک ’عظیم الشان‘ جلوس لیکر اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے۔ چیف جسٹس عمر فاروق نے وکیل سے پوچھا ’’آپ لوگ ٹرائل کورٹ چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے ہیں؟‘‘ جواب ملا’’سر وہاں بہت ہجوم ہوتا ہے۔ میرے موکل کی جان کو خطرہ ہے۔‘‘ چیف جسٹس بولے’’ جب آپ ہزاروں لوگ ساتھ لیکر آئینگے تو امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہوگا۔‘‘ یہ سلسلہ اسی طور چلتا رہا۔ کارکنوں کی جنگی مشقیں بھی جاری رہیں۔ عمران خان کو ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دے ڈالا گیا۔ جذبات پر پیہم بارود پاشی ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ 9 مئی کو عمران خان گرفتار ہوئے اور آتش فشاں پھٹ پڑا۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ سوا دو سال بعد بھی، پی ٹی آئی، ’’اعتراف‘‘ سے کوسوں دور کھڑی، سارا الزام فوج کے سَر تھوپ رہی ہے۔ ایسے میں معافی کا تقاضا اور تلافی کی توقع، خوابِ پریشاں کے سوا کچھ نہیں۔ رہے سنجیدہ، بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات، تو پی ٹی آئی کسی ایسی ’مشقِ بے آب و رنگ‘ کیلئے بنی ہی نہیں۔ سو انتظار کیجئے اور دیکھیے کہ تُند موجوں میں گھری، چرچراتے چوبی تختوں، پھٹے بادبانوں اور شکستہ پتواروں والی اِس ناتواں کشتی پر کیا گزرتی ہے؟
