نئے صوبوں کا قیام عوام کی مزید تباہی کی وجہ کیوں بنے گا؟

گورننس کے مسائل حل کرنے اور عوام کو سہولت فراہم کرنے کا چورن بیچ کر پاکستان میں نئے صوبے بنانے کے جس مطالبے کو ہوا دی جا رہی ہے وہ دراصل عوام کی کمر توڑنے کا باعث بنے گا۔ نئے صوبوں کے قیام بارے جو تجویز زیر گردش ہے، اس کے مطابق اگر ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیا جاتا ہے تو اسکے نتیجے میں 32 نئی ہائیکورٹس کا قیام عمل میں آئے گا، اتنی ہی تعداد میں صوبائی اسمبلیاں، وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس اور اسی تناسب سے صوبائی وزراء بنائے جائینگے۔ ایسے میں اشرافیہ کی تو لاٹری نکل آئے گی، بیوروکریسی کو نئے عہدے ملیں گے، سیاست دانوں کو نئے سنگھاسن میسر آئیں گے، فوجی اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی بندوبست میں آسانی ہو جائے گی، ایسے میں اشرافیہ کو جھنڈے والی گاڑیاں ،پرتعیش دفاتر، تنخواہیں، مراعات اور دیگر آسائشیں فراہم کرنے کیلئے عوام پر مزید ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بظاہر تو یہ منطق پیش کی جارہی ہے کہ نئے صوبوں کے قیام سے وسائل کی تقسیم بہتر ہو گی اور بجٹ مقامی سطح پر بہتر انداز میں استعمال کیا جا سکے گا، لیکن میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والی گنجی عوام نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود ہی مقصود ہے تو یہ کام مقامی حکومتوں کو مضبوط کرکے وسائل اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے نئے صوبے یا نئی ڈویژنز بنانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں نئے صوبوں کے قیام کی بات قومی سلامتی کیخلاف سازش تصور ہوا کرتی تھی اور عمومی تاثر یہ تھا کہ اس تجویز کے حامی ناہنجار دراصل ملک توڑنے کے درپے ہیں۔ جب کراچی سے اردو بولنے والوں نے الگ صوبے کا مطالبہ کیا تو اسے سندھ کیخلاف سازش قرار دیا گیا۔ خیبرپختونخوا سے صوبہ ہزارہ بنانے کی آوازیں بلند ہوئیں تو انہیں خاموش کروا دیا گیا۔ جب جنوبی پنجاب کے مکینوں نے سرائیکی صوبے کی تجویز پیش کی یا بہاولپور کے لوگوں نے اپنی ریاست بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا تو فیصلہ سازوں نے بہت برا منایا۔ مگر پھر نیا دستور نئی حکمت عملی کے ساتھ جلوہ افروز ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ ان مطالبات کی مخالفت کرنے کے بجائے انہیں سیاسی بندوبست کیلئے استعمال کیا جائے۔ چنانچہ فیصلہ سازوں کی جانب سے دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی پنجاب کے ارکان پارلیمنٹ کو ’’صوبہ جنوبی پنجاب محاذ‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا۔ 2018 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن ایک کروڑ ملازمتوں اور 50 لاکھ گھروں کی طرح صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اب ایک مرتبہ پھر سے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بحث کو فروغ دینےوالی ہوائوں کا ایک نیا نظام وطن عزیز میں داخل ہوا ہے اور بونداباندی سے شروع ہونیوالا یہ سلسلہ اب موسلا دھار بارشوں میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔کہاں وہ حالات کہ ایک صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر ہنگامہ ہو جاتا تھا اور کہاں یہ نوبت کہ اب ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ نہایت شد ومد اور کروفر کے ساتھ یہ بتایا جارہا ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل نئے صوبوں کے قیام میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضمن میں بھارت سمیت کئی ہمسایہ ممالک کی مثالیں دی جارہی ہیں۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ یاد رہے کہ بھارت کے برعکس پاکستان چونکہ فیڈریشن ہے، اسلئے ہمارے ہاں سرحدیں تبدیل کرنا آسان نہیں۔ وفاق کے زیر انتظام کسی بھی اکائی کو تقسیم کرنے کیلئے متعلقہ صوبے کی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت درکار ہے اور اسکے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے یہ مرحلہ طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر پنجاب اور بلوچستان کی حد تک یہ ہدف حاصل کر بھی لیا جائے تو سندھ اور خیبرپختونخوا میں کیا ہو گا؟ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے یہ تجویز زیر غور ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے اس جھمیلے کو ہی ختم کردیا جائے۔ لہذا یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ایسی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
بلال غوری کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں اس ضمن میں بھارت کی مثال تو دی جاتی ہے مگر یہ جاننے کا تردد نہیں کیا جاتا کہ وہاں 17سے 28 ریاستوں تک کا سفر کیسے طے ہوا؟ بھارت میں لسانی بنیادوں پر صوبوں کے قیام کی جدوجہد کئی برس پر محیط ہے۔ تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد یہ مطالبات ہونے لگے اور انکے حق میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں 1948 میں جسٹس ایس کے ڈھار کی سربراہی میں ڈھار کمیشن بنایا گیا ۔کمیشن نے تجویز دی کہ لسانی یا علاقائی بنیادوں پر تقسیم کے بجائے انتظامی بنیادوں پرنئے صوبے بنائے جائیں۔ لیکن جب عوامی مطالبات زور پکڑتے چلے گئے تو بھارتی حکومت لسانی بنیادوں پر صوبوں کو تقسیم کرنے پر مجبور ہوگئی اور 1953 میں آندھرا پردیش کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ تیلگو زبان بولنے۔والوں کے مطالبے پر یہ دروازہ کھلا اور پھر 1956 میں ایک ایکٹ کے ذریعے کے بھارتی ریاستوں کا نقشہ یکسر تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم پاکستان میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
