فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نئے صوبے بنانے کا موڈ کیوں بنا لیا ہے؟

 

 

 

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ بظاہر فوجی اسٹیبلشمینٹ نے ملک میں نئے صوبے بنانے کے حوالے سے ’موڈ‘ بنا لیا ہے اور اب اس حوالے سے ’ماحول‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم انکے خیال میں نئے صوبوں کے قیام کا شوشہ بےوقت کی راگنی محسوس ہوتا ہے، اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اسے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر نئے این ایف سی ایوارڈ یعنی نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کی راہ ہموار کرنے کے لیے چھیڑا گیا ہو۔

 

بی بی سی اردو کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں سینیئر صحافی کہتی ہیں کہ مسائلستان میں ہر مسئلہ پچھلے مسئلے سے زیادہ گھمبیر اور آنے والے مسائل کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ ابھی 9 مئی 2023 کے معاملات سمٹے نہیں کہ فضا میں نئے انتظامی یونٹس کی صدا گونجنے لگی ہے۔ صدا لگانے والے ازلی ریاستی ڈھنڈورچی ہوں تو گویا ماجھے تاجے بھی سمجھ جاتے ہیں کہ بیک گراؤنڈ میوزک کس کا ہے۔نئے صوبوں پر گفتگو، 27ویں ترمیم اور این ایف ایس سی ایوارڈ کی تشکیل نو۔۔۔ ایک ہی وقت میں نئے موضوعات اور پرانے معاملات پھر نئی طشتری میں سجا کر پیش کیے جا رہے ہیں حالانکہ ابھی دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات اور خطرات، نو مئی کے مقدمات، ضمنی انتخابات جیسے کئی ایک معاملات زیر گردش ہیں کہ دوبارہ نئے صوبوں کے قیام پر بحث شروع ہو چکی ہے۔

 

عاصمہ شیرازی کے بقول یہ گفتگو کسی طور غیر اہم نہیں اور نہ ہی 27ویں ترمیم فی الحال ایوان اقتدار میں بحث کا موضوع ہے، مگر جس معاملے پر سر دست غور شروع ہو چکا وہ نیا قومی مالیاتی ایوارڈ ہے۔ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر وفاق اپنے حصے میں ساڑھے 42 فیصد اضافہ چاہتا ہے۔ دوسری جانب صوبے ساڑھے 57 فی صد کے حساب سے اپنا حصہ نکالنا چاہتے ہیں، جبکہ آئی ایم ایف وفاق کے حصے کو بڑھانے پر بضد ہے۔ یاد رہے کہ آصف زرداری کے پہلے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے این ایف سی میں صوبوں کا شئیر بڑھا دیا گیا تھا جس کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ نالاں ہے اور اس ترمیم کو ریورس کرنا چاہتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے مالی طور پر وفاق کمزور ہو گیا ہے اور صوبے تگڑے ہو گئے ہیں۔

 

ایسے میں سوال یہ ہے کہ وفاق کا حصہ کیسے بڑھے گا اور صوبے اپنے حصے کو کم کیسے کریں گے؟ اس سلسلے میں کئی ایک تجاویز زیر غور ہیں۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ وفاق گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور اسلام آباد کا حصہ بڑھا دے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ صوبے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام اور موسم کی تبدیلی سے ہونے والے بڑے اخراجات خود اٹھائیں۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ صوبے اپنی کٹوتی خود کر کے وفاق کو حصہ دیں۔

 

تاہم عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ان تینوں تجاویز میں سے قومی مالیاتی کمیشن کس پر رضامند ہو گا یہ دیکھنا اہم ہے۔ سوال یہ بھی یے کہ اگر اس معاملے میں رضامندی بشرط وفاداری استوار نہ ہو سکی تو کس کا ملبہ کس پر گرے گا؟

یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وفاق اور صوبوں کے درمیان بحث طول اختیار کر سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب افہام و تفہیم سے ہو جائے اور حسب سابق سب جماعتیں اپنی بقا کی خاطر سمجھوتہ کر لیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بعض نکات پر اختلافات 18ویں ترمیم کے بعد سے موجود ہیں۔ وفاق کے پاس دفاع، قرضوں کی ادائیگی سمیت دیگر اخراجات کے لیے محدود وسائل پر فوج تحفظات کا اظہار کئی بار کر چکی ہے۔ 18ویں ترمیم اور اس کے بعد وجود میں آنے والے این ایف سی ایوارڈ پر سیاسی جماعتیں، بالخصوص پیپلز پارٹی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر رہی ہے، تاہم اب جنگی حالات اور تقاضوں نے وفاق کو مزید پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔

 

سینئر اینکر پرسن کہتی ہیں کہ دوسری جانب ایک موقف یہ بھی ہے کہ صوبوں کے اضافی بجٹ کے باوجود قرضوں کی ادائیگی، ریونیو اور دفاع اور اب موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا مزید مالیاتی دباؤ وفاق پر آ رہا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں پہلے سے ہی پیش بندی کرنا ضروری ہے۔ یہ بحث پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تو موجود ہے ہی مگر اب وفاقی اور صوبائی اکائیوں کے درمیان بلائے جانے والے کمیشن کے اجلاس میں باضابطہ دیکھنے کو ملے گی۔ آپس میں معاملات طے ہونے کی صورت آئین کے آرٹیکل 160 کی شق 3 میں تبدیلی ضروری نہیں جبکہ دوسری صورت تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نتیجتا ایک اور آئینی ترمیم کی صورت حال بننے کا امکان موجود ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فوجی قیادت نے اس حوالے سے ’موڈ‘ بنا لیا ہے اور اب ’ماحول‘ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویسے تو نئے انتظامی یونٹس کے حوالے سے چھیڑی گئی بحث بھی بےوقت کی راگنی محسوس ہوتی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر کئی ایک شرائط کی صورت کم سے کم اتفاق کے لیے یہ معاملہ چھیڑا گیا ہو؟ نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر نئے این ایف سی کی راہ ہموار کر سکتا ہے؟

 

عاصمہ شیرازی کے بقول کسی بھی مجوزہ نئے انتظامی یونٹ کے قیام سے قبل متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری ضروری ہے اور ایسی صورت میں دو تہائی اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی کے لیے کم از کم سندھ میں اس پر سمجھوتا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ دوسری صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کسی واردات کے لیے پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے اور کیا اس مقصد کے لیے پیپلز پارٹی کو سندھ میں سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے؟ یہ سب سوالات محض سوالات ہیں یا آنے والے دنوں میں سیاسی رسہ کشی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اس کا اندازہ آئندہ چند دنوں میں ہو سکے گا۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!