کیا نہری پانی کا مسئلہ PPP کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دے گا؟

سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کی موجودگی میں اگر دریائے سندھ سے نہروں کے ذریعے پانی نکال کر چولستان کو آباد کرنے کا متنازعہ منصوبہ آگے بڑھایا گیا تو پی پی پی کو سخت سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا جس سے بچنے کے لیے وہ حکومت سے علیحدہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، یہ سندھی عوام کی بقا اور خوش حالی کا سوال ہے۔ ابھی تو سندھ میں اس منصوبے کیخلاف احتجاج کی شروعات ہیں‘ لیکن اگر کوئی خاطر خواہ حل تلاش نہ کیا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
معروف سیاستدان اور رائٹر کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر اپنے تازہ تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب کبھی پانی کے مسئلے کو ٹھیک طرح سمجھا ہی نہیں ہے۔ ہم پنجابیوں کو کون سمجھائے کہ ہمارے اپنے تین دریا تو ہمیشہ کیلئے ہاتھ سے چلے ہی گئے لیکن ہم اپنے باقی ماندہ دریاؤں کے پانیوں کے پیچھے بھی پڑے رہتے ہیں اور وہ بھی بغیر یہ سمجھے کہ دیگر صوبوں کا بھی ان پر کوئی حق ہے۔ اس بحث میں گئے بغیر کہ سندھ طاس معاہدے سے کیا فائدے ہوئے اور کیا نقصان‘ اتنا تو واضح ہے کہ راوی‘ ستلج اور بیاس ہمارے ہاتھ نکل کر پڑوسی ملک بھارت کے ہو گئے۔ جہلم اور چناب کے پانی جس طرح استعمال ہونے چاہئیں تھے ہم نہ کر سکے اور اس میں بھی پڑوسی ملک ہم سے سبقت لے گیا۔ ان دو دریاؤں کا پانی جس طرح ہندوستانی استعمال کر رہے ہیں اور ان دریاؤں پر ڈیم اور بجلی گھر بنا رہے ہیں، ویسا ہمیں کرنا چاہیئے تھا، لیکن نہیں۔ اس کیلئے سوچ چاہیے تھی اور یہاں بیماری ہی یہی رہی ہے کہ سوچ نام کی چیز کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ رہ گیا دریائے سندھ، تو تربیلا کی صورت میں اُس کا پانی استعمال ہو رہا ہے لیکن عرصے سے پنجاب میں یہ دھڑکا لگا رہا کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے۔ اس کی خیبر پختونخوا کے لوگوں نے مخالفت کی‘ سندھیوں نے آواز اٹھائی‘ پھر جا کے کہیں یہ منصوبہ رکا، نہیں تو پنجاب کے دانشور اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کا نہ بننا پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنی سازش تھی۔ انہیں کون بتائے کہ اس ہٹ دھرمی پر قائم رہنے سے چیزوں کو اکٹھا رکھنا مشکل ہو جاتا۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ تو عملاً ختم ہو گیا لیکن اب ایک نیا چونچلا کھڑا کر دیا گیا ہے کہ دریائے سندھ سے نہروں کے ذریعے پانی نکال کر چولستان کو آباد کرنا ہے۔ ارادہ نیک ہے‘ صحرا سبز وشاداب ہو جائے تو اچھی بات ہے لیکن اُس میں بھی دیکھنا یہ چاہیے کہ چولستان کی قدیم آبادیوں کو فائدہ ہوگا یا وہاں بھی آباد کاروں کو بٹھا دیا جائے گا۔ بہرحال یہ تو دور کی بات ہے‘ فی الحال مسئلہ تو یہ ہے کہ جتنا صحرا کو پانی چاہیے ہو گا وہ دریائے سندھ سے نکالا گیا تو پیچھے رہ کیا جائے گا؟ دریائے سندھ میں ویسے بھی وہ پانی نہیں رہا جو ایک زمانے میں بہتا تھا۔ ہاں سیلاب آئے تو پھر دریائے سندھ کی طغیانی دیکھنے کی ہوتی ہے لیکن نارمل حالات میں جیسا کہ آج کل ہے‘ آدھا دریا تو سوکھا پڑا ہے۔ فصلوں کیلئے پانی کافی نہیں‘ ماہی گیر بیٹھے ہوئے ہیں کہ دریا سے کچھ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ چولستان والا منصوبہ پتا نہیں کس کی زرخیز سوچ ہے کہ پاکستان زراعت میں تبھی ترقی کرے گا جب دریائے سندھ کا پانی چولستان کو سیراب کرے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ تمام سندھ اس نکتے پر کھڑا ہو گیا ہے‘ کیا ہاری کیا وڈیرے۔ جن کا زراعت سے تعلق نہیں وہ بھی احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں کہ سندھ کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ اقتدار کا حصہ ہے اب تک چپ رہی‘ اُس کے لیڈرانِ کرام کے لب اب تک سلے پڑے تھے لیکن پارلیمنٹ کے خطاب میں صدر آصف زرداری بول اٹھے ہیں کہ ایسے منصوبے کی وہ حمایت نہیں کر سکتے۔ اور آیس آئی ایف سی کے جو طاقت ور منصوبہ ساز ہیں اُنہیں یکطرفہ کارروائیاں نہیں کرنے کی بجائے تمام متاثرہ طبقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ کوئی ہمارے اربابِ اختیار سے پوچھے کہ اس وقت دیگر مسائل میں کیا کمی آ گئی ہے کہ یہ نیا شوشا چھوڑا گیا ہے؟ اس وقت ریاست دہشت گردی سے نمٹ رہی ہے۔ دو صوبوں کے وسیع علاقوں میں ایک شورش زدہ صورتحال پائی جاتی ہے۔ انہیں باغی کہیے یا سرکش عناصر‘ ان لوگو ں کی طرف سے آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال کا تو پہلے کچھ مداوا کیا جائے‘ ہمارے دو مغربی صوبوں میں امن وشانتی قائم ہو۔ ساتھ ہی ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشی حالات کیا ہیں۔ مانگے تانگے پر گزارا ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں بھی ایک محاذ آرائی جاری ہے۔ غرضیکہ اتنے محاذ کھلے ہوئے ہیں کہ ریاستی توانائیاں محدود ہیں اور مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایسے میں نئے مسائل کھڑے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
لیکن ایاز امیر کہتے ہیں کہ بغیر کسی وسیع تر مشاورت یا اتفاقِ رائے کے یہ چولستان والا منصوبہ قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ چولستان کی بہت ساری زمین اس منصوبے کیلئے مختص کر دی گئی ہے۔ صدر آصف زرداری کے انتباہ کے بعد اور سندھ میں جو صورتحال بن رہی ہے‘ اُس کے پیش نظر اس منصوبے کو آگے چلانا مشکل ہو جائے گا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں تک بھی کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے اگر اس منصوبے کو آگے کیا گیا تو یا تو پیپلز پارٹی کو بے حد سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا یا اُسے حکومت سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے‘ سندھی عوام کی بقا اور خوشحالی کا سوال ہے۔ ابھی تو احتجاج کی شروعات ہیں‘ خاطر خواہ حل تلاش نہ کیا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی آوازیں دب گئی ہیں اور جو ایک جمہوری ماحول میں گفتگو کا انداز ہونا چاہیے وہ ختم ہو گیا ہے۔ چولستان والے منصوبے پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب کے اپنے مسائل بہت ہیں اُن پر توجہ دی جائے اور ساتھ ہی پانی کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔