کیا پاکستانی حکمرانوں کا انجام بھی نیپال والا ہو گا؟

 

 

 

سینیئر اینکر پرسن اور صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ آج کی ٹک ٹاک حکومتیں سوشل میڈیا پر ڈرامے بازی کے ذریعے عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنا سکتیں۔ وفاق اور پنجاب کے حکمران جتنے مرضی ٹک ٹاکرز خرید لیں، وہ عوام کو ماموں نہیں بنا سکتے، لہذا بہتر ہو گا کہ حکمران خود کو بدلنے اور بہتر بنانے کی کوشش کریں ورنہ ان کا انجام بھی وہی ہو گا جو نیپال کے حکمرانوں کا ہوا ہے۔

 

حامد میر روزنامہ جنگ میں سیلاب زدہ علاقوں کا احوال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہاں شام کے اوقات میں مشکل یہ پیش آتی رہی کہ ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبزر کی بھرمار ہو جاتی تھی۔ ہم متاثرہ افراد کی مشکلات اور مسائل اجاگر کرنے کی کوشش میں ہوتے لیکن اس دوران ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز ہمارے پیچھے لگ جاتے جس کے باعث ہماری نقل و حرکت مشکل ہو جاتی لہٰذا ہماری ترجیح یہ ہوتی کہ شام کی بجائے صبح کام کریں اور شام سے پہلے ریکارڈنگ مکمل کر کے رات آٹھ بجے اپنا شو جیو نیوز پر نشر کر دیں۔

 

سینئیر صحافی بتاتے ہیں کہ ایک روز ہم صبح چھ بجے ملتان کے ہوٹل سے گاڑی میں نکلے تو ایک نامعلوم گاڑی نے ہمارا پیچھا کرنا شروع کر دیا ۔ صبح صبح سڑکوں پر رش نہیں ہوتا لہٰذا خالی سڑک پر کوئی گاڑی آپکے پیچھے آئے تو خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ہم شہر سے کافی باہر آگئے اور سیلاب سے ڈوبے دیہاتوں کی طرف جانیوالی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آگے بڑھنے لگے ۔ یہ سڑک بھی کہیں کہیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھی لیکن اس سڑک پر بھی مشکوک گاڑی ہمارے پیچھے آ رہی تھی ۔ ہم آگے گئے تو اُس چھوٹی سی سڑک پر بڑی تعداد میں گائیں ، بھینسیں اور بکریاں بیٹھی ہوئی نظر آئیں ۔ یہ مویشی سیلاب زدہ علاقے سے نکل کر سڑک پر آ بیٹھے تھے ۔ ہم وہاں رک گئے – ہم سیلابی ریلوں میں پرائیویٹ کشتیاں چلانے والوں سے کرایہ طے کرنے لگے کیونکہ ہمیں کشتی کے ذریعے آگے جانا تھا ۔

 

وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران ہمارے پیچھے آنیوالی گاڑی سے ایک شخص باہر آیا اور کسی سے باتیں کرنے لگا ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی کو راستہ سمجھا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم کشتی میں بیٹھ کر آگے روانہ ہوتے مقامی انتظامیہ اور پولیس کا ایک پورا لشکر وہاں پہنچ گیا ۔ ہم صبح ساڑھے چھ بجے ڈی سی اور پولیس افسران کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ وہاں نہ تو کوئی ریلیف کیمپ تھا اورنہ ہی کوئی ریسکیو آپریشن چل رہا تھا ۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ انتظامیہ ہمارے پیچھے آئی ہے ۔ ہم کسی خفیہ مشن کی تکمیل تو کر نہیں رہے تھے ۔ لہٰذا ہمیں کوئی پریشانی نہ ہوئی۔ انتظامیہ کے نمائندوں نے بتایا کہ قریب ہی انھوں نے ایک ریلیف کیمپ قائم کیا ہے وہاں متاثرہ لوگوں کو ناشتے میں نان چنے دئیے جا رہے ہیں انہوں نے کہا آئیں آپکو بھی ناشتہ کرائیں ۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ہم تو آگے پانی میں جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا جس جگہ آپ جا رہے ہیں وہاں ہمارا ریسکیو آپریشن چل رہا ہے ہم بھی آپکے ساتھ چلتے ہیں ۔ ہمیں اُنکے ساتھ جانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔

 

حامد میر بتاتے ہیں کہ پندرہ منٹ کے بعد ہم ریسکیو آپریشن والی جگہ پر پہنچے تو وہاں پر پانچ چھ افراد ہاتھوں میں کیمرے اُٹھائے اور آئی فونز کے ساتھ ہماری ویڈیوز بنانے کیلئے تیار کھڑے تھے۔ میں نے ایک پولیس اہلکار سے سرگوشی میں پوچھا کہ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ اُس نے بتایا کہ یہ سب سرکاری ملازم ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ تو اپنے حلیے سے بڑے ماڈرن نظر آتے ہیں۔ پولیس اہلکار نے بتایا کہ آجکل کے ٹک ٹاکر تو ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن آج ان بیچاروں کو آپکی وجہ سے صبح صبح اُٹھ کر شہر سے باہر اتنی دور آنا پڑ گیا ۔ ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ صبح صبح ہماری گاڑی کا پیچھا کرنے والا بھی ایک سرکاری ملازم تھا جسکی ڈیوٹی یہ تھی کہ انتظامیہ کو بتائے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔ ہمیں اپنی مانیٹرنگ پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ ہم ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں داخل ہوتے تو اگلے ضلع والوں کو وائر لیس پر بتا دیا جاتا تھا کہ ہم کدھر جا رہے ہیں ۔ سوال یہ تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں انتظامیہ کے اتنے زیادہ لوگ متاثرین پر توجہ دینے کی بجائے ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے؟

 

حامد میر بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کیساتھ سرکاری ٹک ٹاکرز کا ہجوم ہمیں صرف پنجاب میں نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ علاقوں میں بھی نظر آیا۔ ہر جگہ پر کمشنر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کے علاوہ ایس پی صاحبان کے ساتھ انکے ٹک ٹاکرز نظر آئے ۔ مجھے ان ٹک ٹاکرز پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اگر حکومتی ادارے اور اہم شخصیات سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کار کردگی کو چار چاند لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اکثر جگہ پر یہ سرکاری افسران اور سیاستدان ایکٹنگ کرتے نظر آئے۔

 

سینئیر صحافی بتاتے ہیں کہ میں نے ایک اے ایس پی صاحبہ کو دیکھا۔ وہ ایک ہی جگہ پر بار بار لہراتے ہوئے چل رہی تھیں ۔ جب وہ بار بار لہراتی ہوئی نظر آئیں تو پتہ چلا کہ موصوفہ ‘ٹک ٹاک ویڈیو ریکارڈ کروا رہی تھیں ۔ جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سیلاب زدگان میں پانچ پانچ ہزار کے نوٹ بانٹنے کی ویڈیو بنوائیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز رحیم یار خان کے ایک ریلیف کیمپ میں ایک چھوٹی بچی سے یہ پوچھیں کہ بتاؤ تو سہی کہ میں کون ہوں؟ بچی جواب میں کہے آپ مریم نواز صاحبہ ہیں اور’’صاحبہ‘‘کے لفظ پر مریم نواز کا چہرہ کھل اُٹھے۔ پھر یہ ویڈیو میڈیا پر ریلیز بھی کرائی جائے تو ایسے میں ایک خاتون اے ایس پی کو بھی لہرا لہرا کر اپنی ویڈیو ریکارڈ کرانے کا پورا حق ہے۔

 

لیکن گزارش صرف اتنی ہے کہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے ۔ میں نے سیلاب زدہ علاقوں میں بار بار دیکھا کہ اے سی اور ڈی سی صاحبان یا محکمہ مال یا محکمہ صحت کا عملہ ہمارے سامنے تو متاثرین کے ساتھ مسکرا مسکرا کر بات کرتا تھا لیکن جیسےہی ہم اُنکی نظروں سے اوجھل ہوتے تو اُنکی مسکراہٹیں غائب ہو جاتیں۔ حکومت کے زیادہ تر افسران نے کام کم کیا اور ٹک ٹاک ویڈیوز زیادہ بنوائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اوپر سے نیچے تک کار کردگی کا معیار صرف اچھی ٹک ٹاک ویڈیو بنانا ہے۔ چند سال پہلے تک حکومتیں ایکٹنگ کم اور کام زیادہ کرتی تھیں کیونکہ انہوں نے عوام سے ووٹ لینے ہوتے تھے۔ لیکن جب سے ووٹ کی عزت نیلام ہوئی ہے اور فارم 47 کا کھڑاک سامنے آیا ہے تب سے عوام کی بے توقیری بڑھ گئی ہے، اب سیاست دانوں میں زیادہ ووٹ لینے کا مقابلہ نظر نہیں آتا۔ آج کل مقابلہ چل رہا ہے تو اچھی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کا۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کے ساتھ گالی گلوچ کرنے کا مقابلہ ہے۔ ٹک ٹاک حکومتیں بھول رہی ہیں کہ ٹک ٹاک ، فیس بک، انسٹا گرام ، ایکس اور یوٹیوب پر وہ عوام کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔ عوام کی آواز دبانےکیلئے جب سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو پھر وہ ہوتا ہے جو پہلے بنگلہ دیش اور پھر نیپال میں ہوا ۔ اخبار ، ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر وہی بیانیہ مقبول ہوتا ہے جس کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے ۔ آج کی ٹک ٹاک حکومتیں سوشل میڈیا پر ڈرامے بازی کے ذریعہ عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتیں۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکمران خود کو بدل لیں ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو نیپال میں ہوا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!