پاکستانی سیاست پر ٹرمپ کی جیت اثر انداز ہوگی یا 26ویں ترمیم ؟
ایک جانب عمران خان کے ساتھی اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ صدارتی الیکشن میں جیت کے بعد ٹرمپ کپتان کی رہائی کے لیے کردار ادا کریں گے تو دوسری طرف وفاقی حکومت اس یقین کا اظہار کر رہی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور آرمی چیف کی مدت ملازمت بڑھانے کے بعد ملک سیاسی استحکام کے راستے پر گامزن ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں معاشی استحکام آئے گا اور ملکی مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں سیاسی محاذ پر ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جنہوں نے آنے والے برسوں کا منظر بھی واضح کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں نے سیاسی عدم استحکام کا بظاہر خاتمہ کر دیا ہے جس کے بعد نہ صرف پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا بلکہ حکومت کو درپیش خطرات بھی بظاہر ٹل گئے ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ملک کے لیے سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے، جو سیاسی بحران کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں لوگوں کو یہ یقین مل جانے کے بعد کہ موجودہ سسٹم پانچ سال چلے گا، معاشی استحکام بھی پاکستان کا رخ کرنے والا ہے۔
یاد رہے کہ 26ویں ائینی ترمیم کے نتیجے میں اپ سپریم کورٹ کا سیاسی کردار محدود ہو گیا ہے اور تمام تر آئینی اور سیاسی تنازعات کے حل کے لیے ایک آئینی بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے جس کے سربراہ جسٹس امین الدین ہوں گے جو ماضی میں قاضی فائز عیسی کے قریب ترین سمجھے جاتے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سینیارٹی میں چیف جسٹس کے بعد چوتھے نمبر پر موجود جسٹس عدالت عظمیٰ کے جج طاقتور ترین شخص بن چکے ہیں۔
یاد رہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ہاتھوں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ بن چکا ہے جس میں پنجاب سے جسٹس عائشہ ملک، سندھ سے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، بلوچستان سے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان اور خیبر پختونخوا سے جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس میں حکومت نے اپنی اکثریت ثابت کرتے ہوئے اپنی مرضی کا آئینی بینچ تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ کمیشن کے اجلاس میں فیصلہ سازی کے دوران چیف جسٹس آفریدی، جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر، عمر ایوب اور شبلی فراز اقلیت میں چلے گئے، اور سات اور پانچ کے تناسب سے حکومت نے اپنی مرضی کے فیصلے کروا کیے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے عدلیہ میں اپنے پنجے گاڑنے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل میں اسے 7 اراکین کی حمایت سے کامیابی ملی ہے، آئینی بینچ کا سربراہ بننے کے بعد جسٹس امین الدین خان عدالتی فیصلہ سازی میں اہمیت اختیار کر چکے ہیں کیونکہ وہ نئے قانون کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بننے کے ساتھ ساتھ کیسز کے آئینی پہلو کا جائزہ لینے والی کمیٹی کا بھی حصہ بن چکے ہیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن کا وہ پہلے ہی سے حصہ تھے، یعنی جسٹس امین الدین نہ صرف اس تین رکنی کمیٹی کا حصہ ہیں جو یہ تعین کرے گی کہ کون سا کیس آئینی بینچ کو ریفر کیا جانا ہے، بلکہ وہ اس کمیٹی میں بھی فیصلہ سازی کریں گے جو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ میں کیسز مقرر کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں بھی جسٹس امین الدین کا ووٹ اہمیت کا حامل ہو گا، ان تمام اہم عہدوں کے ساتھ وہ آئینی بینچ کے سربراہ بھی ہوں گے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ شاید اسی لیے چیف جسٹس یحیی آفریدی نے جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کے ساتھ مل کر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔ ظاہر ہے سپریم کورٹ اور اس کے ججز کا اختیار کم ہونے جا رہا ہے جبکہ آئینی بینچ کا اختیار بڑھنے جا رہا ہے جو سپریم کورٹ کے عمراندار ججز کو قابل قبول نہیں ہوگا۔ مبصرین کے مطابق چیف جسٹس آفریدی بھی بڑے دلچسپ انداز میں عدالتی معاملات لے کر چل رہے ہیں، ایک جانب وہ جوڈیشل کمیشن میں جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اقلیت میں چلے جاتے ہیں، دوسری جانب وہ آئینی ترمیم کے خلاف دائر کردہ درخواستیں فل کورٹ میں لگانے کے معاملے پر جسٹس منصور اور جسٹس منیب کے فیصلے کا ساتھ نہیں دیتے۔
جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے چیف جسٹس آفریدی کو لکھے گئے خط میں انکشاف ہوا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اکثریتی ججز نے فل کورٹ بٹھانے کا فیصلہ سنایا مگر چیف جسٹس نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، ان کا موقف تھا کہ اب یہ تمام کیسز آئینی بینچ ہی سنے گا، یہ صورت حال بتا رہی ہے کہ اعلی عدلیہ میں اہم ایشوز پر اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد دگنی کرنے کا قانون بھی منظور کروا لیا ہے، یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور ہوا ہے جب ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے اور اس میں حکومت اپنی اکثریت ثابت کر چکی ہے، اس اکثریت کے ساتھ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی مرضی کے ججز کا تقرر کرنے جا رہی ہے۔ یوں سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تقرری کے بعد حکومت کی عدلیہ کو اپنی گرفت میں لینے کے خواہش تقریباً پوری ہو چکی ہے، ایسے تمام معاملات جو حکومت کیلئے خطرہ ہو سکتے ہیں اب آئینی بینچ کو منتقل ہو چکے ہیں جسے حکومت نے اپنی مرضی سے تشکیل دیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت جن ججز کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھی وہ فیصلہ سازی میں اقلیت میں ہیں، ایسے میں حکومت پُر اعتماد نظر آتی ہے کہ جس معاملے کو وہ 25 اکتوبر کے بعد خطرہ سمجھتی تھی وہ ٹل چکا ہے۔
آئینی ترمیم کے بعد عمران خان کا فوجی تحویل میں جانے کا امکان
دوسری جانب سروسز چیفس کی مدت ملازمت کے معاملے نے بھی واضح پیغام دے دیا ہے کہ آئندہ کئی برس پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا، سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ فردِ واحد کی بجائے پہلی مرتبہ ادارہ جاتی اپروچ کو لے کر چلنے کو ظاہر کرتا ہے مگر اس میں سب سے اہم معاملہ یقیناً آرمی چیف کی مدت ملازمت اور اس سے جڑی ڈویلپمنٹس ہیں۔ حالیہ برسوں میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کے آخری سال میں اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال دیکھنے کو ملتا رہا جس کا اثر براہ راست ملکی سیاست پر بھی پڑتا ہے مگر حکومت نے مدت ملازمت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی قانون سازی کر کے تمام قیاس آرائیوں کو نہ صرف دفن کر دیا بلکہ سکیورٹی اور معیشت سمیت اہم ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کو سیاست کی نظر ہونے سے بچا لیا ہے۔