کیا ٹرمپ کی جیت سے واقعی حکومت میں کھلبلی مچ چکی ہے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار نسیم زہرا نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت چاہے لاکھ دعوے کرتی رہے کہ صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت سے پاکستانی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور عمران خان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی رہیں گے، لیکن سچ یہ ہے کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی جیت پاکستانی سیاست پر یقیناً اثر انداز ہو گی اور اس کے شواہد اگلے چند ہفتوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ وہ کہتی ہیں پاکستان کے لیے امریکہ سے تعلقات اب بھی اہم ہیں، اور اس وجہ سے حکومت پاکستان کی بھی امریکی انتخابات میں دلچسپی منطقی ہے۔ ٹرمپ کی جیت کے بعد اسلام آباد کی حکومت اور راول پنڈی میں موجود طاقت ور فیصلہ ساز پاک امریکہ تعلقات کو آگے کی سمت بڑھانا چاہتے ہیں۔

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ صدر ٹرمپ قیدی نمبر 804 کو پسند کرتے ہیں۔ جولائی 2019 میں جب عمران خان بحیثیت وزیرِ اعظم اس وقت کے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے وائٹ ہاؤس پہنچے تو ٹرمپ نے غیر معمولی گرم جوشی دکھائی تھی جس کی ویڈیوز اب بھی آن لائن دیکھی جا سکتی ہیں۔

ناصرف اس وقت، بلکہ بعد میں ٹرمپ تقریروں میں بھی عمران خان کا ذکر کرتے رہے اور انہیں اپنا دوست کہتے رہے۔ اب اس آٹھ سال پرانے تعلق کا امریکہ میں بسنے والے عمران خان کے حامی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کس طریقے سے استعمال کرتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن قیدی نمبر 804 کے رکھوالے اسی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ۔

نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اگر پچھلے صدارتی الیکشن میں شکست کھانے والے ٹرمپ کا وقت بدل گیا ہے تو عمران خان کا وقت بھی بدل سکتا ہے۔ اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد سے پاکستان میں اونچے عہدوں پہ فائز لوگ پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں، کل تک ٹرمپ کی شکست کی پشین گوئیاں کرنے والے حکومتی عہدے دار اب ٹرمپ کو مبارک بادی کے پیغامات بھیجنے میں تیزی دکھا رہے ہیں۔

نسیم زہرہ بتاتی ہیں کہ ٹرمپ 20 جنوری 2024 کو امریکہ کے 47 ویں صدر کا حلف اٹھانے والے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے خلاف جو چار مقدمے دائر ہیں، ان میں سے ایک میں ان کو 26 نومبر 2023 کو سزا سنائی جانی ہے۔ اسی لیے انہوں نے پہلا سزا یافتہ امریکی صدر کہا جاتا ہے جن کے خلاف مواخذے کی دو تحریکیں بھی پاس ہوئی تھی۔ لیکن امریکی عوام نے تمام تر الزامات کے باوجود ٹرمپ کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ نسیم زہرہ بتاتی ہیں کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ انکے خلاف مقدمات آگے نہیں بڑھیں گے لیکن حیران کن طور پر انکی جیت کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکہ کے محکمہ انصاف نے منتخب صدر کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کے انتظامات شروع کر دیے۔

پاکستانی سیاست پر ٹرمپ کی جیت اثر انداز ہوگی یا 26ویں ترمیم ؟

یاد رہے کہ ٹرمپ امریکہ کی حالیہ تاریخ کے شاید متنازع ترین صدر مانے گئے ہیں۔ انہیں 34 مقدمات میں مجرم ٹھہرایا گیا، اور بار بار عدالت جا کر حاضری لگانا پڑی۔ انہوں نے بھی عمران خان کی طرح سیاست میں پر تشدد اور جنگجو طرز عمل اپنایا۔ 2020 کا صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا اور کئی لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے بے انتہا مشکلات کا سامنا کیا۔ مقدمات تو ایک طرف رہے، ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا۔

لیکن چونکہ وہ ہار قبول کرنے والوں میں سے نہیں اس لیے وہ ہر محاذ پر لڑے، قانونی، سیاسی اور عوامی اور بالآخر عوامی طاقت کے زور پر صدر منتخب ہو گئے۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جس طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو پسند نہیں کرتی اسی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ کو پسند نہیں کرتی لیکن اس کے باوجود وہ صدر منتخب ہو گئے۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوئی کردار ادا کر پائیں گے یا نہیں۔

Back to top button