معاہدے کے باوجود تحریک طالبان کے حملے کیوں جاری ہیں؟


کپتان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین افغانستان میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں ایک ابتدائی معاہدے کے باوجود ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں جس کی بنیادی وجہ اداروں کی جانب سے وعدے کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی رہائی میں ہونے والی تاخیر ہے۔
باخبر ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ افغان طالبان کی نگرانی میں تحریک طالبان پاکستان سے ہونے والے مذاکرات میں کوئی حکومتی نمائندہ تو شریک نہیں تاہم پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرنے والے لوگ ان میں شریک ہیں۔ ان مذاکرات کے فائنل راؤنڈ کا آغاز 25 اکتوبر کو ہوا تھا جس کے بعد ایک تحریری معاہدہ طے پا گیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے مابین یکم نومبر سے عارضی فائر بندی ہونا تھی لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا کیونکہ ٹی ٹی پی نے اپنے جن گرفتار جنگجوؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا وہ ابھی تک قید میں ہیں۔ معاہدے کے مطابق پہلے مرحلے میں رہائی پانے والوں میں تحریک طالبان کے سابق اہم ترین ترین کمانڈرز محمود خان، مسلم خان اور مولوی عمر شامل ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل یہ مذاکرات اسٹیبلشمنٹ اور تحریک طالبان کے مابین ہو رہے ہیں اور جن طالبان کمانڈرز کی رہائی میں تاخیر ہو رہی ہے وہ بھی سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں، حکومت کی تحویل میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید رہائی میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ رہائی کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں کیونکہ طالبان کے گرفتار مرکزی کمانڈرز کو عدالتوں سے سزائیں مل چکی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ گارنٹی حاصل کرنا بھی ہے کہ طالبان کمانڈرز کی رہائی کے بعد واقعی سیزفائر ہو جائے گا اور تحریک طالبان فورسز پر حملہ واقعی بند کر دے گی۔ اس معاملے میں افغان طالبان حکومت ضامن کا کردار ادا کر رہی ہے لہذا وہی اس حوالے سے گارنٹر ہو گی۔
اس معاہدے کے حوالے سے ابھی تک پاکستانی حکام اور تحریک طالبان دونوں ہی خاموش ہیں لیکن بتایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی طالبان کمانڈرز کی رہائی ہو جائے گی اور دونوں طرف سے سیز فائر ہو جائے گا، تو معاہدے کا اعلان کر دیا جائے گا۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل یہ معاہدہ دو فریقین یعنی طالبان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے مابین ہے لیکن کاغذوں پر یہ حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین ہوگا جس پر عمل درآمد کی ضمانت افغان طالبان کی حکومت دے رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں 102 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس کے بدلے میں ٹی ٹی پی سیز فائر کا اعلان کرے گی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ان قیدیوں کو یکم نومبر کو رہا کیا جانا تھا لیکن چند تکنیکی وجوہات کے سبب اس میں تاخیر ہوئی اور پھر 4 نومبر کو رہائی کا فیصلہ ہوا تاہم ناگزیر وجوہات کے سبب ایک بار پھر ایسا نا ہوسکا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ محمود خان اور مسلم خان سمیت کچھ اہم طالبان قیدیوں کو ممکنہ رہائی کے لیے افغانستان لے جایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مسلم خان سابق طالبان امیر ملا فضل اللہ کے قریبی ترین ساتھی تھے اور طالبان سوات چیپٹر کے ترجمان تھے۔ اس کے علاوہ محمود خان اور مولوی عمر بھی تحریک طالبان کے ترجمان رہ چکے ہیں جنہیں کہ سوات میں ہونے والے فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی حکام اور طالبان ترجمان خراسانی نے باضابطہ طور پر اس پیش رفت کی تصدیق نہیں کی۔ البتہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ قیدیوں نے اپنے گھروالوں کو 13 برس بعد فون کرکے اپنے بارے میں بتایا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن عمل میں زیادہ تر مسائل ختم کردیئے گئے ہیں اور طرفین نے مستقبل کے ایجنڈے پر اتفاق کیا ہے۔ مذاکرات میں شامل ٹیم کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی رہنمائوں کے درمیان متعدد کامیاب اجلاس ہوئے ہیں۔ پہلا اجلاس کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا، جس کے بعد دو سیشنز افغانستان کے سوبہ خوست میں ہوئے جہاں دونوں جانب سے بامقصد مذاکرات کی تجاویز پیش کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات پہلے قبائلی ضلع باجوڑ سے شروع ہوئے تھے جب کابل کی ایک جیل سے حال ہی میں رہائی پانے والے ٹی ٹی پی کے سابق نائب امیر مولوی فقیر محمد کے قریبی کچھ مذہبی قبائلی رہنمائوں نے حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان معاہدہ کروانے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ مولوی فقیر محمد کا تعلق باجوڑ سے ہے اور کبھی وہ ٹی ٹی پی کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے اہم سمجھے جاتے تھے۔ افغان افواج نے انہیں افغانستان میں گرفتار کرکے بگرام جیل منتقل کردیا تھا۔ وہ ان ہزاروں قیدیوں میں شامل تھے جنہیں افغان طالبان نے قابل پر قبضے کے بعد رہا کیا تھا، جب کہ پاکستانی طالبان انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ایک بڑے قافلے میں کنڑ لے گے تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ فقیر فوجی حکام سے ملے تو انہوں نے امن مذاکرات پر اتفاق کیا اور افغانستان میں پاکستانی طالبان رہنمائوں سے رابطے کا کہا گیا۔ ابتدائی طور پر دو رکنی وفد افغانستان گیا اور وہاں ٹی ٹی پی کے سینئر رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، جنہوں نے ان سے اتفاق کیا لیکن کہا کہ وہ صرف بامعنی مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں گے۔ اس کے بعد دو مزید رہنمائوں کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنایا گیا جو حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خوست میں مزید دو اجلاس ہوئے جو نتیجہ خیز رہے اور طرفین نے فیصلہ کیا کہ امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
بتایا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تب مجبور ہو گئے جب افغان طالبان نے تی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں کارروائی سے انکار کیا اور صلح کی تجویز پیش کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان نے مذاکرات کروانے کی ذمہ داری سراج الدین حقانی کو سونپی جو کہ افغانستان کے وزیر دفاع ہیں اور جن کے پاکستانی سکیورٹی حکام اور تحریک طالبان دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ امن عمل کی راہ میں زیادہ تر رکاوٹیں ختم ہوچکی ہیں اور امن معاہدہ بھی آئندہ چند روز میں منظر عام پر آجائے گا۔ تاہم دوسری جانب ناقدین ستر ہزار سے زائد پاکستانیوں کی قاتل تنظیم سے معاہدے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اسے ریاست پاکستان کی شکست قرار دے رہے ہیں۔

Back to top button