کیا جنرل عاصم منیر فوج کو سیاست سے علیحدہ کر پائیں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا ہے کہ ایک عرصے بعد فوجی معیار پر پورا اترنے والے سینئر ترین تھری اسٹار جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی کے بعد یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ادارے کے حوالے سے پھیلی سیاسی بدگمانیوں کو دور کریں گے، بلکہ اپنے پیش روئوں کی روایات سے ہٹ کر بطور ادارہ فوج کو سویلین معاملات سے علیحدہ کرتے ہوئے اس کی آئین و قانون کے مطابق اصلاح کا کام شروع کریں گے۔ انکا کہنا ہے کہ 75 برس سے جاری بعداز نوآبادیاتی نوکر شاہانہ قومی سلامتی کی ریاست کے آہنی ڈھانچے کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ اس مشن کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہر کیف اس حوالے سے ابتدا پاکستان کے ایک پائیدار جمہوریہ کی جانب سفر کو آسان بنا سکتی ہے، بشرطیکہ سیاستدان موقع پرستانہ اور بے اصول سیاست میں پھنسے رہنے کی بجائے جمہوری رواداری اور باہمی افہام و تفہیم کی پارلیمانی روایات پر عمل کرنا شروع کریں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں امتیاز عالم کہتے ہیں کہ ایک جانب قومی اتفاق رائے سے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتیوں کا عمل بخیر و خوبی انجام پا چکا ہے۔ دوسری جانب عمران نے بھی لانگ مارچ ختم کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب چڑھائی کا ارادہ ملتوی کر دیا یے۔ اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے، اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ اسے واپس جی ایچ کیو کے کورٹ میں پھینک کر پھر سے اپنی انگلیاں کٹوائیں گے۔ ریٹائر ہوتے وقت جنرل قمر باجوہ بھی 75 برس تک فوج کی سیاست میں آئین کُش مداخلت کے ہاتھوں رسوائی پر معافی مانگ چکے ہیں اور فوج کے بطور ادارہ سیاست سے کنارہ کشی کا عہد دہرا چکے ہیں۔
لہٰذا اب نظریں نئی فوجی قیادت کی جانب لگی ہیں کہ وہ کس حد تک فوج کی سیاست سے دست کشی کے عہد پر عمل پیرا ہوتی ہے اور افواج پاکستان اور اس کی ایجنسیاں آئینی اعتبار سے کتنی قلب ماہیئت کرتی ہیں۔ لیکن تشکیک پسند ہیں کہ کہے جا رہے ہیں کہ :چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ عمران چوٹی پر چڑھ کر بیٹھے ہیں اور چھلانگ مارنے کی دھمکیاں دینے سے باز نہیں آرہے۔ دوسری جانب حکومت ہے کہ معاشی و اداراتی بحران کے منجدھار میں پھنسی بے بسی سے ہاتھ پائوں مارنے پر مصر ہے۔ عمران نے جو مقبولیت کی معراج پانی تھی پاچکے، اب وہ نیچے آئے گی تو ان کی اپنی بے مقصد اچھل کود سے۔ خان صاحب سیاسی عدم استحکام کی دہائی تو دے رہے ہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ وہ خود اس سیاسی عدم استحکام کے سب سے بڑے محرک ہیں۔ انہیں جیسے سیاسی طور پر پالا پوسا گیا، انکے مخالفوں کو جیسے ناکام و رسوا کیا گیا اور ایک صفحہ کی برکت سے فیض یاب کیا گیا، وہ بھی قصۂ پارینہ ہو چکا۔
سوال یہ ہے کہ اب جبکہ وہ اپنے تئیں خود ایک پاپولر لیڈر بن چکے ہیں اور انہیں کسی بیساکھی کی ضرورت بھی نہیں رہی تو وہ کیوں باربار پلٹ کر پھر سے فوج کا بغل بچہ بننے کی آرزو میں مبتلا ہیں؟ان کی آخری پناہ گاہ پارلیمنٹ ہے جسے وہ آج تکریم بخشیں گے تو کل ان کی ممکنہ منتخب حکومت کی مضبوط اساس بنے گی۔ دوسری جانب اتحادیوں کی وسیع تر حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ موجودہ معاشی و سیاسی بحران کو وہ تن تنہا سنبھال نہیں پا رہی۔ اسکے سو جتن کے باوجود معاشی ابتری جلد ختم ہونے والی نہیں۔ معاشی بحران اتنا گمبھیر ہے کہ اس کا بوجھ اگلی حکومتوں کو بھی اٹھانا پڑے گا۔ اس دوران اگر ہم کچھ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو اس پر کوئی پیسہ خرچ کئے بغیر بھی خود پیدا کردہ بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔
امتیاز عالم کہتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے فوری اور درمیانی مدت کے جو اقدامات ضروری ہیں وہ یہ ہیں کہ :ریاست کم از کم اپنے خرچے آدھے کردے، تمام ادارے اپنی مراعات ایک تہائی کردیں، کسی بھی غیر پیداواری خرچے کے لئے قطعی طور پر کوئی قرض حاصل نہ کیا جائے، تمام آمدنی پر واجب الادا ٹیکس دیا جائے۔ تمام ٹیکس استثنا ختم کردی جائیں۔ کم آمدنی والوں کے لئے امدادی رقوم کو سختی سے مخصوص کردیا جائے۔ ہر طرح کی اجارہ داری، سٹے بازی اور مافیاز کا قلع قمع کردیا جائے۔ خواص کا غلبہ ختم کرتے ہوئے، عوام کو ترقی اور اس کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جائے۔ جاگیرداری اور کرپٹ کرایہ داری کے نظام کو تہس نہس کردیا جائے۔
دست نگرمعیشت کی جگہ معاشی و مادی اور سائنسی پیداواری قوتوں کو فروغ دیا جائے اور عوامی ترقی کے ماڈل کو اپناتے ہوئے عوام کو سماجی خدمات، تعلیم و صحت، ہنر مندی اور ترقی کے مواقع فراہم کئے جائی۔ اسکے علاوہ آئین کے مطابق تمام ریاستی اداروں کے دائرہ عمل کا سختی سے تعین کیا جائے۔ سول ملٹری تعلقات کے تاریخی مسئلے کو آئین کی منشا کے مطابق استوار کرتے ہوئے جمہوری بالا دستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری سے وابستہ کیا جائے۔ نیز ریاست کے بھاری بالائی ڈھانچے کو محدود معاشی استعداد کے بنیادی ڈھانچے سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کٹ ٹو سائز کیا جائے۔ قرضوں کے جال اور دست نگری کے خاتمے کے لئے بھی جامعہ منصوبہ بندی کی جائے۔ غرض یہ کہ خواص کے پاور اسٹرکچر اور امرا کی سیاسی معیشت میں انقلابی تبدیلی کے بغیر فوجی چین آف کمانڈ میں تبدیلی سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں۔ ٹھیک ہونا ہے تو سب کو ٹھیک ہونا ہے اور ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ورنہ وہی ڈھاک کے تین پات!