سی پیک پروجیکٹ سے مکھڈ شہر کو نئی زندگی ملنے کا امکان


ضلع اٹک کے انتہائی قدیم اور تاریخی علاقے مکھڈ کی تاریخ ایک صدی بعد اب نیا موڑ لے رہی ہے چوں کہ پاک چین اقتصادی راہدری کا مغربی روٹ یہاں سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے اب اس تک رسائی آسان ہو جائے گی۔
ایسے میں اگر حکومت اس 109 برس پرانے قصبے کے مٹتے ہوئے آثار محفوظ بنا لے تو یہاں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے اور اس شہر کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔
مکھڈی حلوے کا نام تو سب نے سن رکھا ہے مگر مکھڈ کے تاریخی قصبے بارے لوگ نہیں جانتے جو اسلام آباد سے 170 کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تین سو سال پہلے کا کوئی شہر کیسا ہو گا تو اس کے لیے آپ کو مکھڈ ضرور دیکھنا چاہیے جو اپنی پوری تہذیبی قدامت کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ اس کی قدیم گلیاں اور چوبارے، مندر، مسجدیں، گوردوارہ اور کشتیوں کے گھاٹ شکستہ ضرور ہیں مگر سلامت ہیں۔
پاکستان میں مکھڈ کے علاوہ شاید ہی کوئی اور تاریخی قصبہ ہو جو اپنی اصلی حالت میں آج بھی موجود ہے۔ اسلام آباد سے کوہاٹ جاتے ہوئے اٹک کی تحصیل جنڈ آتی ہے، یہاں ڈھلوانی پہاڑیوں کے راستے بل کھاتی ہوئی ایک سڑک آپ کو مکھڈ لے جاتی ہے۔ یہاں کی تنگ اور چھتی ہوئی گلیاں، خوبصورت پتھروں سے تراشیدہ در و دیوار اپنے دور کے ماہر کاریگروں کے فن کا منہ ثبوت ہیں۔ مکھڈ کے دری پر بنے تین منزلہ گھر اور ان کے خوبصورت چوبارے دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ جب اس شہر میں زندگی اپنے جوبن پر ہو گی تو کیسی دکھتی ہو گی؟ یہاں کی شب براتیں کیسی ہوتی ہوں گی اور دیوالیاں کیسے منائی جاتی ہوں گی، کتنی ہندو بہنیں اپنے مسلمان بھائیوں کو راکھی باندھتی ہوں گی، ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں پر مشتمل تکثیری سماج کی بنت کیا ہو گی؟ اس علاقے کا مشہور خٹک ناچ دیکھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ یہاں زندگی نے کتنی خوبصورت انگڑائیاں لی ہوں گی۔ نجانے پھر اسے کس کی نظر لگ گئی کہ آج یہ شہر تو اپنی جگہ کھڑا ہے مگر اس کے مکین تاریخ میں کہیں کھو گئے ہیں۔ آج اس شہر سے کہیں زیادہ وسیع اس کا قبرستان ہے جو تین میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اکثر قبروں کے نشان تک مٹ چکے ہیں۔ مقامی افراد کے بقول یہ قبرستان ایک ہزار سال پرانا ہے۔
کہتے ہیں کہ مکھڈ کے مغوی معنی بہت بڑے کھڈے کے ہیں۔ یہ مہا کھڈ سے بنتے بگڑتے مکھڈ ہو گیا ہے۔ محمد وزیر ابدالی کی کتاب ’تاریخِ مکھڈ‘ جسے دارالحفیظ اٹک نے 2009 میں شائع کیا، اس کے صفحہ تین پر درج ہے کہ ’2000 قبل مسیح میں کورو اور پانڈو قبائل کے درمیان آبی گزرگاہ پر قبضے کی جنگ مکھڈ سے 15 کلومیٹر دور ماڑی انڈس میں قلعہ مانی کوٹ میں لڑی گئی جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ ماڑی انڈس اشوک کا پایۂ تخت بھی رہا۔ ایران کا شہنشاہ دارا کا امیر البحر آبی راستوں کی تلاش میں مکھڈ سے گزرا تھا مکھڈ اس وقت ہندو مت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ سکندر اعظم کی فوج کے کچھ لوگ بھی بھاگ کر مکھڈ میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ 317 میں نوشرواں عادل کے دور حکومت میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا۔کہتے ہیں کہ مکھڈ ایک تجارتی شہر تھا۔ جتنی تجارت آج کل سڑکوں سے ہوتی ہے جب یہ نہیں تھیں تو دریائی راستے استعمال ہوتے تھے۔ ان دریائی راستوں میں دریائے سندھ سب سے بڑا ذریعہ تھا جس میں سکھر سے شمال کی جانب چلنے والی کشتیوں کا آخری پڑاؤ مکھڈ تھا۔ یہاں سینکڑوں کشتیاں ہر وقت رواں رہتی تھیں۔
مکھڈ اس وقت افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لیے سب سے اہم آبی بندرگاہ کے طور پر شمار ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہاں ایک بڑی تجارتی منڈی بن گئی تھی۔ کراچی میں آج جو کاروباری اہمیت میمن برادری کو حاصل ہے کبھی وہی حیثیت یہاں کی پراچہ برادری کو حاصل تھی، جن کے کپڑے اور قالینوں کا کاروبار ہندوستان سے چین، افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔ کالا باغ کا نمک یہاں سے ہی سکھر جاتا تھا اور آگے اسے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں خشکی اور سمندری راستوں سے بھیجا جاتا تھا۔ مکھڈ کے بازار میں دو سو کے لگ بھگ دکانیں تھیں جن میں دنیا جہان کا سامان ملتا تھا۔ لیکن پھر ایک تبدیلی آئی جس نے اس شہر کی تجارتی اہمیت ختم کر دی۔ وہ تبدیلی تھی ریل، جس نے پورے ہندوستان کو آپس میں مربوط کر دیا جس وجہ سے جو تجارت کشتیوں کے ذریعے ہو رہی تھی وہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگی۔ انڈس فوٹیلا کمپنی، جس کے تجارتی جہاز سکھر اور روہڑی سے کالا باغ اور مکھڈ تک چلا کرتے تھے وہ نارتھ ویسٹرن ریلوے میں ضم کر دی گئی۔ 1894 میں راولپنڈی سے میانوالی اور ملتان تک پٹری بچھائی گئی تو ریل مکھڈ کے نزدیک انجرا سے گزرنے لگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے سالوں میں مکھڈ کی رونقیں ماند پڑنا شروع ہو گئیں۔
لیکن پھر بھی راولپنڈی کے گزیٹیئر 1910 میں درج ہے کہ دریائے سندھ میں مکھڈ تک بڑی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں خصوصا جہاں تک انڈس فوٹیلا کے سٹیمر جایا کرتے ہیں۔ چھوٹی کشتیاں اٹک تک بھی جاتی ہیں مگر مکھڈ اور اٹک کے درمیان کشتی رانی مشکل اور خطرناک ہے۔ مکھڈ تا سکھر یہ کشتیاں وسیع تجارت سر انجام دیتی ہیں۔ اوسط سائز کی کشتیاں 600 من وزن لے جا سکتی ہیں لیکن 1000 من والی کشتیاں بھی یہاں عام ہیں، جنہیں پانچ آدمی کھیتے ہیں۔ مکھڈ میں ملاحوں کی بستی بھی ہے جن پر 1095 روپے لگان بھی عائد ہے۔ کبھی یہاں کشتیوں کا ایک پل بھی ہوا کرتا تھا جہاں سے دریا پار کیا جاتا تھا۔ لیکن پھر ریلوے کے آنے سے وہ ختم ہو گیا۔ مکھڈ میں ایک ہی وقت میں 32 کشتیاں لنگر انداز ہو سکتی تھیں۔ مکھڈ کی تاریخ دو حصوں میں ہے۔ ایک سترہویں صدی سے پہلے کا مکھڈ ہے جس کی تاریخ قبل از مسیح تک جاتی ہے۔ مکھڈ کا پرانا شہر کیسے تباہ ہوا؟ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ دریائے سندھ میں کئی بار خوفناک طغیانی آئی جس نے اس کے کنارے آباد بستیوں کو تہس نہس کر دیا۔
اٹک کے گزیٹیئر 1930 میں رقم ہے کہ 16 جون 1841 میں آنے والے سیلاب سے چار بٹالین فوج اپنے گھوڑوں اور سامان سمیت بہہ گئی، ایک چوتھائی تربیلا بہہ گیا۔ ایسا ہی سیلاب 1889 اور 1928 میں بھی آیا، 2010 کے سیلاب میں بھی مکھڈ کی موجودہ آبادی کو خاصا نقصان ہوا، جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ پرانا مکھڈ کسی ایسے ہی خوفناک سیلاب کی نذر ہوا ہو گا۔مکھڈ سے اٹک کی جانب دریا پر دوسرا پڑاؤ باغ نیلاب کا ہے جس کی تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ کئی حملہ آور دریائے سندھ کو یہاں سے پار کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ باغ نیلاب میں سنگ مرمر کی ایسی چٹانیں کثرت سے موجود ہیں جن پر مختلف نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جو کوہستان کے علاقے دیامر سے بہہ کر آئی ہیں۔ یہ چٹانیں اتنی بھاری بھرکم ہیں کہ جو سیلاب انہیں دیامر سے باغ نیلاب تک تین سو کلومیٹر نیچے دھکیل کے لایا ہو گا یقیناً اس نے مکھڈ اور شاید اس جیسی کئی بستیوں کے نام و نشان بھی مٹا دیے ہوں گے۔
موجودہ مکھڈ شہر سترہویں صدی میں فصیلوں کے اندر بنایا گیا تھا جس کے تین دروازے تھے تاکہ یہ بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکے۔ دریا کے ساتھ ساتھ یہ شہر تین کلومیٹر تک چلتا ہے جہاں 11 گھاٹ ہیں جنہیں مقامی زبان میں پتن کہا جاتا ہے۔ خان آف مکھڈ کے بنگلے کے پاس موجود گھاٹ کو خاناں والا پتن کہتے ہیں۔
مکھڈ سینکڑوں سال ہندو تہذیب و تمدن کا ایک اہم مرکز رہا۔ آج بھی دریائے سندھ کے کنارے پر موجود ایک مندر اس کی گواہی دیتا ہے جس کی سیڑھیاں دریا کی طرف اترتی ہیں۔ اس مندر کے ساتھ ہندؤوں کا ایک کمپلیکس بھی تھا جس میں ایک بہت بڑی لائبریری بھی موجود تھی۔ یہ ہندو تہذیب کی شان و شوکت ہی تھی جس نے یہاں پر مسلمان مبلغین کو آنے پر اکسایا۔ 1910 میں مکھڈ کی آبادی 4195 افراد پر مشتمل تھی جسے میونسپل کمیٹی کا درجہ بھی حاصل رہا مگر یہاں کے خانوں اور پیروں میں لڑائی کی وجہ سے مکھڈ میونسپل کمیٹی کے درجے سے محروم کر دیا گیا۔
کہتے ہیں کہ مکھڈ میں وائسرائے ہند لارڈ ویول بھی آیا تھا۔ اٹک کا گزیٹیئر کہتا ہے کہ لارڈ ڈلہوزی کے کانوائے کا ایک ہاتھی کالا باغ جاتے ہوئے مکھڈ کے نزدیک دلدل میں دھنس کر ہلاک ہو گیا تھا۔ یہاں کئی مشہور فاتحین نے بھی اپنے قدم رکھے ہوں گے لیکن تاریخ ہمیشہ قلعوں اور ان کے لیے لڑی جانے والی جنگوں کو یاد رکھتی ہے۔ مکھڈ کی تاریخ سو سال بعد ایک اور موڑ لے رہی ہے اور اب سی پیک کا مغربی روٹ اس کے قریب سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے اس تک رسائی آسان ہو جائے گی۔ مکھڈ شاید تاریخ میں اپنا کھویا ہوا مقام تو حاصل نہ کر سکے لیکن اگر حکومت اس قصبے کے مٹتے ہوئے آثار کو محفوظ بنا لے تو یہاں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے۔ دریا کے رخ پر بنی ہوئی تین منزلہ حویلیاں جنہیں ماڑیاں کہا جاتا ہے، وہ باآسانی ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ عمران خان کے مشیر ذلفی بخاری کا آبائی علاقہ زیارت بیلہ بھی یہاں سے قریب ہے۔ وہ مکھڈ کو سیاحتی مقام میں تبدیل کر کے یہاں کے مٹتے ہوئے ورثے کو بچا سکتے ہیں۔

Back to top button