بلوچ طلبہ کے اغوا کے خلاف مظاہروں میں شدت آ گئی

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں جامعہ بلوچستان کے دو طلبہ کی جبری گمشدگی کے بعد صوبے میں طلبہ کی جانب سے شروع کیے جانے والے مظاہروں کی لہر میں شدت آ گئی ہے لیکن اس کے باوجود اغوا میں ملوث اداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی نظر نہیں آتی۔ دونوں طلبہ اب تک لاپتہ ہیں جس سے باقی طلبہ میں غصہ اور خوف بڑھتا جا رہا ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین زبیر بلوچ کے مطابق پرسرار طور پر اغوا کیے جانے والے سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ نوشکی کے رہائشی اور بلوچستان یونیورسٹی کے پاکستان سٹیڈیز ڈپارٹمنٹ کے طالب علم ہیں۔ دونوں طالب علم یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے اور یکم نومبر کو یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ ہوئے ہیں۔ زبیر بلوچ نے الزام لگایا کہ اس واقعے سے چند روز قبل یونیورسٹی کے دو دیگر طالب علم جمیل بلوچ اور عبدالرحمان بلوچ کو بھی جبری طور پر غائب کیا گیا ہے اور وہ بھی ابھی تک لاپتہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ جس ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے، اس کا ایک بڑا حصہ فرنٹیئر کور کے کنٹرول میں ہے۔ وہاں کیمرے بھی لگے ہیں مگر یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دونوں طالب علموں کی گمشدگی کے وقت کی فوٹیجز دستیاب نہیں جس سے اغوا کاروں کے بارے میں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
زبیر کے مطابق بلوچستان یونیورسٹی کے اندر سے طلبہ کی گمشدگی کے باعث باقی طالب علم خوفزدہ ہیں، لاپتہ طلبہ کے لواحقین اور طلبہ تنظیموں نے وائس چانسلر سے بات کی مگر انہوں نے اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ اب جبکہ اس واقعے کو تین ہفتے گزر چکے ہیں تو طلبہ کے احتجاج میں شدت آ گئی ہے۔ احتجاجی طلباء نے یونیورسٹی کے گیٹ لاک کر دیے ہیں اور ٹیچنگ سٹاف میں سے کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں۔ جامعہ کے تمام دروازوں کو ہر قسم کی آمدروفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور یونیورسٹی میں ہونے والے امتحانات کا بائیکاٹ جاری یے۔
دوسری جانب اس معاملے میں بلوچستان کی نئی حکومت بھی بے بس نظر آتی ہے اور وزیراعلی بھی خاموش ہیں۔ صوبائی حکومت نے خود بلوچستان اسمبلی میں اعتراف کیا ہے کہ اس وقت جامعہ میں 160 سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں لیکن جب پوچھا گیا کہ اس کے باوجود طلبہ کیسے لاپتہ ہوئے تو بتایا گیا کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کیمروں کا بیک اپ موجود نہیں۔ بلوچستان میں حالیہ چنانچہ ان حالات میں طلبہ کے پرزور مظاہرے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ صوبے میں جو چند گھمبیر مسائل عرصہ دراز سے حل طلب ہیں محض چشم پوشی، انکار اور ٹال مٹول سے حل نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف ماوررائے عدالت کارروائیوں کے خلاف جو سیاسی و سماجی کارکن متحرک ہیں، وہ اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں۔ انہیں خاموش کروانے کی تمام تراکیب بےسود ثابت ہوئی ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک بدستور مصمم اور توانا ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ اور دیگر غیر طے شدہ مسائل وقتاً فوقتاً نمودار ہو کر حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں لیکن چونکہ بلوچستان کی حکومت صوبے کے عوام سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کو جواب دہ ہے اس لئے شرمندگی اس کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ اس حوالے سے کافی عرصے سے صوبائی حکومتوں کا طریقہ واردات یہ رہا ہے کہ وہ اسے سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے علاوہ بلوچ قوم پرستوں کا باہمی قضیہ قرار دے کر خود کو لاتعلق کرتی آ رہی ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ صوبائی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور جو حکومت یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی، اس کے وجود اور جواز پر عوام سوال اٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب خود صوبائی وزرا اور اہلکار نجی مجلسوں میں یہ کہہ کر اپنی بےبسی کا رونا روتے ہیں کہ اس طرح کے ’نازک معاملات‘ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ لہذا وہ اس مسئلے کو اگر حل کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تین ہفتے قبل لاپتہ ہونے والے طلبہ کی بازیابی میں تاخیر کی وجہ صوبائی حکومت کبھی یہ بتاتی ہے کہ وزیراعلیٰ کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی تو کبھی کہتی ہےکہ دراصل آئی جی صاحب اپنے بھائی کی فاتحہ خوانی کے سلسلے میں کوئٹہ سے باہر ہیں۔ ناقدین کا۔کہنا ہے کہ اس معاملے میں حکومت تو انتظار کرسکتی ہے لیکن ایسا کلیجہ کہاں سے لائیں جو لاپتہ افراد کی غم زدہ ماوں کو حکومت کی ’مجبوریوں‘ اور بہانوں کو سمجھانے پر قائل کرے؟
یاد رہے کہ بلوچستان میں جاری شورش میں پچھلی دو دہائیوں سے کئی اتار چڑھاو آئے ہیں۔ کئی بار مذاکرات کی بات ہوئی لیکن جو چیز تواتر سے دیکھنے میں آئی وہ ’ملک دشمن عناصر‘ کا جبری طور پر لاپتہ کیا جانا ہے۔
اخباری رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بہت کم ایسے لاپتہ افراد ہیں جن کا تعلق بلوچ مسلح تنظیموں سے ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلح تنظیمیں زیادہ تر شہر سے باہر اپنے مورچوں میں رہتی ہیں یا پہاڑی علاقوں میں کارروائی کرتی ہیں اور دوسری بات یہ ہے مسلح افراد کو جب بھی حکومتی اہلکار گرفتار یا لاپتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فریقین کے درمیان خونی جھڑپیں ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نہتے شہری بالخصوص کالج اور جامعات کے نوجوان طلبہ ہی جبری گمشدگیوں کی اس متنازع پالیسی کا شکار بنتے ہیں۔
لاپتہ افراد کے والدین کو فوری طور پر یہی خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے بچوں کو گمشدگی کے دوران ہی مار نہ دیا جائے۔ اس خوف کے پیش نظر اگر ان کے بچے کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا سوچ و فکر سے رہا بھی ہے تو وہ اس امید سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ انکے بیٹے کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا، کہ شاید اس بنیاد پر ان کی اولاد کو بری کر دیا جائے۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس کے حل کے لیے ایک کمیشن بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گمشدگیوں کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں۔ صوبے میں تعلیمی پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ دیہی بلوچستان میں بیشتر والدین پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ بیشتر کو اردو بولنا تک نہیں آتی۔ چنانچہ وہ نہ تو ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے فراہم کردہ پیچیدہ کوائف نامہ بھر سکتے ہیں۔ بے بسی کا یہ عالم ہے کہ بہت سارے والدین کو پریس ریلیز لکھنی آتا ہے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دینا آتا ہے۔ چنانچہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کی مذمت کرتے ہوئے ناقدین کہتے ہیں کہ سیاست کرنا جرم نہیں ہے۔ لہذا سیاسی سوچ رکھنا اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی سزا اتنی بھاری نہیں ہونی چاہیے کہ طلباء کو لاپتہ کر دیا جائے۔ ریاستی اداروں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسی حرکتوں سے وہ بلوچ قوم پرستوں میں پائی جانے والی علیحدگی کی سوچ اگلی نسلوں میں منتقل کر رہے ہیں۔