قبائلی علاقوں کا انضمام، مقاصد حاصل کرنے میں ناکام

افغانستان کی سرحد سے ملحقہ سابق قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود اب تک ان علاقوں میں نہ تو ملک میں رائج سول قوانین کی توسیع کا سلسلہ مکمل ہوا اور نہ ہی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تعمیر پر عمل درآمد کا وعدہ پورا ہوسکا۔ یہی وجہ ہے قبائلی شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ حکومتی وعدوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں جبکہ انضمام کے مخالفین اسے عالمی قوتوں کی خوشنودی کے لئے اٹھایا گیا ایک ایسا غیر ضروری قدم قرار دیتے ہیں جس کے ذریعے محض قبائلیوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔
قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے مقاصد برطانوی دور حکومت کے نافذ کردہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن یعنی ایف سی آر کا خاتمہ، ملک میں نافذ سول قوانین کو قبائلی علاقوں تک توسیع دینا، ملک کے دیگر علاقوں کے برابر ترقی دلوانا، قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں لانا، ریاستی عمل داری قائم کرنا اور عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ تھے۔ لیکن، بتایا جاتا ہے کہ حکومتی اداروں بالخصوص پولیس اور عدلیہ کو قبائلی اضلاع تک درکار دائرہ اختیار نہ دیے جانے کے نتیجے میں امن و امان کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں اور یہ کہ قبائلی اب تک حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے وفا ہونے کے منتظر ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی کا دعویٰ ہے کہ قبائلی اضلاع میں تمام سول ادارے، بشمول پولیس فورس، فرائض سر انجام دے رہے ہیں مگر قبائلیوں اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں سول اداروں اور پولیس کو وہ اختیارات حاصل نہیں جو ملک کے دیگر علاقوں میں ہیں۔ ضلع مہمند سے رکنِ صوبائی اسمبلی نثار احمد مہمند کا کہنا ہے کہ حکومت ان تینوں مقاصد کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ نثار مہمند نےکہا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کا مقصد قبائلی علاقوں کی جداگانہ حیثیت کا خاتمہ تھا، مگر حکومت نے آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ رزولوشن یا اے ڈی آر ایکٹ کے تحت قبائلی علاقوں کی جداگانہ حیثیت کو انضمام کے بعد بھی جاری رکھا ہے۔ اسی طرح، سالانہ سو ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کرنے کے وعدے کو بھی ایفا نہیں کیا جا رہا۔ یاد رہے کہ جے یو آئی-ف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاوہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ رہنماؤں اور بعض حکومتی حلقوں نے بھی انضمام کی مخالفت کی تھی۔ ان قبائلی رہنماؤں میں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین آفریدی بھی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ قبائلی علاقوں کا انضمام غیر آئینی ہے اور آرٹیکل 247 کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ان کے بقول، یہ انضمام غیر ملکی قوتوں کی خوشنودی کے لیے کیا گیا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انضمام کے بعد قبائلیوں کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے اور افغانستان کے ساتھ روایتی تجارتی راستوں کو بند کرنا بقول ان کے، قبائلیوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔صلاح الدین آفریدی نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کے وقت ترقی، خودمختاری اور انصاف کی فراہمی کے وعدے کیے گئے تھے، مگر ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور ان کی کابینہ میں شامل وزرا اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کا دعویٰ ہے کہ قبائلی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے مگر نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومتی جماعت اور اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک ارکان بھی قبائلی علاقوں میں حکومت کے انتظامی، سیکیورٹی اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد سے مطمئین نہیں دکھائی دیتے۔
واضح رہے کہ چھبیس مئی 2018 کو سابقہ اسمبلیوں کے پانچ سال کی تکمیل سے چند روز قبل حکومت نے انتہائی عجلت یا ہنگامی بنیادوں پر وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے لیے قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے آئین میں پچیسویں ترمیم منظور کی تھی۔اس وقت اسمبلیوں میں موجود جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی بھاری اکثریت سے پچیسویں آئینی ترمیم کو منظور کیا تھا۔اس وقت کے صدر ممنون حسین نے 31 مئی 2018 کو آئینی مسودے پر دستخط کر کے قبائلی علاقوں کے 118 سال پر محیط آزاد اور خودمختار حیثیت کو ختم کر کے سات ایجنسیوں اور چھ نیم قبائلی علاقوں فرنٹیر ریجنز کو باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا میں شامل کر دیا تھا۔ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اس صوبے میں اضلاع کی تعداد ستائیس کے بجائے 34 ہو گئی ہے جب کہ چھ نیم قبائلی علاقوں کو پشاور، کوہاٹ، ہنگو، بنوں، لکی مروت اور ٹانک کے اضلاع میں تحصیلوں کی حیثیت دی گئی۔ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی کی نشستیں 124 سے بڑھ کر 145 ہو گئیں۔ ان نشستوں میں سے 21 نشستوں کو براہِ راست انتخابات کے ذریعے پُر کیا گیا تھا جب کہ پانچ نشستوں میں سے چار خواتین اور ایک غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مختص کی گئی ہے۔قبائلی علاقوں میں پہلے ہی سے قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ملک کے دیگر علاقوں کی طرح 25 جولائی 2018 کو انتخابات ہوئے جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اگست 2019 میں انتخابات ہوئے۔ اس طرح قبائلی علاقوں کی تاریخ میں پہلی بار ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں نمائندگی ملی تھی۔
ایوان بالا میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کو 1973 کے آئین کی منظوری کے بعد نمائندگی ملی تھی اور وقتا فوقتاً اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سینیٹ میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کی آٹھ نشستیں مختص تھیں مگر پچیسویں آئینی ترمیم یا انضمام کے بعد رواں برس ہونے والے سینیٹ انتخابات میں قبائلی علاقوں کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوسکے۔ سینیٹ میں سابقہ قبائلی علاقوں کے صرف چار ممبران موجود ہیں جن کی میعاد 2024 میں مکمل ہوگی۔ انضمام کے بعد تمام قبائلی علاقوں میں برطانوی دور کے متعارف کردہ خاصہ دار اور لیویز فورسز کا خاتمہ ہوا ہے۔ ان فورسز کے تقریباً 28 ہزار اہلکاروں کو پولیس فورس کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ تاہم، سیکڑوں کی تعداد میں اہلکاروں کو تعلیمی کوائف یا تعلیم نہ ہونے، جسمانی کمزوری یا عمر کی بنیاد پر پولیس فورس میں شامل نہیں کیا گیا۔انضمام کے بعد سول انتظامیہ کے بجائے فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو سرحدی علاقوں اور گزرگاہوں کے انتظامات تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔