سکیورٹی فورسزTTP کی دہشت گردی کیوں نہیں روک پا رہیں؟

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حکومت پاکستان کے ساتھ سیزفائر یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے اعلان کے بعد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید تیزی آگئی ہے جس پر سکیورٹی حکام کی جانب سے اظہار افسوس کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز طالبان کی دہشت گردی روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ خصوصا جب ماضی میں عسکری حکام تحریک طالبان کی کمر توڑنے اور انکے خلاف جنگ جیتنے کے دعوے بھی کر چکے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستانی سکیورٹی فورسز تحریک طالبان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ جیت چکی تھیی تو پھر ان کے ساتھ مذاکرات کی نوبت کیوں آئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ دراصل یہ تحریک طالبان کی دہشت گردی ہی تھی جس نے پاکستانی عسکری حکام کو تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیزفائر کے یکطرفہ خاتمے کے اعلان کے بعد تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کو اسی لیے تیز کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام کو دوبارہ اپنی شرائط کے مطابق مذاکرات شروع کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ تحریک طالبان کی جانب سے 10 دسمبر کو حکومت پاکستان کے ساتھ سیز فائر معاہدہ ختم کرنے کے بعد خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ان تمام واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے قوم کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے وسیع تر قومی مفاد میں تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بعد ازاں 9نومبر کو تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے مابین عارضی فائر بندی معاہدہ طے پا گیا تھا تاہم 10 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ حکومت پاکستان ان کے ساتھ کیے کئی وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ اس اعلان کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
افغان امور کے ماہر صحافی سمیع یوسف زئی نے بتایا ہئ کہ طالبان دراصل حکومت پاکستان کے ساتھ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر ناراض ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے آخری دور میں تحریکِ طالبان کے امیر مفتی نور ولی محسود اور پاکستان کے ایک عسکری افسر کی ملاقات ہوئی تھی۔ تاہم معاملات بہت خراب ہوا جب تحریک طالبان کے امیر نے یہ واضح کیا کہ ان کے جنگجو ساتھی حکومت پاکستان سے امن معاہدہ ہو جانے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کی جانب سے دو سو کے قریب گرفتار جنگجوؤں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی سکیورٹی حکام ان سب کو رہا کرنے پر تیار نہیں تھے کیونکہ ان کے کیسیز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
لیکن حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک طالبان کی جانب سے فائر بندی کے خاتمے کے باوجود ان کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ مذاکرات کا ٹوٹا ہوا عمل دوبارہ سے جوڑا جا سکے۔ لیکن دوسری جانب ناقدین یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستانی سکیورٹی فورسز اتنی کمزور ہوچکی ہیں کہ وہ مٹھی بھر طالبان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور انہیں ختم کرنے کی بجائے ان کے ساتھ امن مذاکرات اور معاہدے کر کے ریاست کی رٹ کا جنازہ نکالنے پر تلی ہوئی ہیں۔