احسن اقبال اورشاہد خاقان عباسی کی گرفتاری پر نیب سے وضاحت طلب

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب سے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی گرفتاری کی وضاحت طلب کر لی ہے. چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ احسن اقبال اور شاہد خاقان کا کیس اگر انکوائری اسٹیج پر تھا تو انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ احکامات کس نے جاری کئے؟ نیب گرفتاری کی وجوہات نہ بتا سکا تو یہ ہارڈشپ کا کیس بن جائے گا. انھوں نے مزید کہا کہ نیب کے گرفتاری کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے اور اس اختیار کی وضاحت کرناہوگی ، کہیں نہ کہیں یہ سلسلہ ختم ہوناہوگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں احسن اقبال کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس نے نیب سے پوچھا کہ احسن اقبال تفتیش میں تعاون کررہے تھے توانھیں گرفتار کیوں کیا؟کیا گرفتار کیے بغیر انکوائری مکمل نہیں ہوسکتی تھی؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گرفتاری کا حکم مجاز اتھارٹی، چیئرمین نیب نے دیا، خدشہ تھا کہ احسن اقبال ریکارڈ ٹیمپر کردیں گے، اس پر عدالت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ کیا وزارت کا ریکارڈ اب بھی احسن اقبال کے پاس ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وارنٹ گرفتاری ٹھوس شواہد کی روشنی میں ہی جاری کیےجاتےہیں اس پر عدالت نے پھر پوچھا کہ یہی پوچھ رہےہیں کہ وہ وجہ بتائیں کہ گرفتاری کے آرڈر کیوں جاری کیے گئے؟ جب آپ کسی کو گرفتارکرتے ہیں تو اس کی عزت اور وقار پر حرف آتا ہے، کیا نیب میں اتنی صلاحیت نہیں کہ احسن اقبال کو بنیادی حقوق سےمحروم کیے بغیر تفتیش مکمل کرتا؟ کیوں نہ نیب کی بلاجواز گرفتاری کو غلط قرار دیا جائے؟ نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ خدشہ تھا کہ احسن اقبال گواہوں کو نیب نہیں آنے دیں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا تفتیشی افسر صاحب آپ کو کس بنیاد پر خدشہ تھا کہ یہ گواہوں کو نہیں آنے دیں گے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ احسن اقبال کے ملک سے فرار ہونے کا بھی خدشہ تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورت میں آپ کو ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا چاہئے تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دئیے کہ کیوں نہ نیب کی بلاجواز گرفتاری کو غلط قرار دیا جائے، نیب کے گرفتاری کے اختیار پر تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے، کہیں نہ کہیں یہ سلسلہ ختم ہوناہوگا، اس اختیار کی وضاحت کرناہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ احسن اقبال کا کیس اگر انکوائری اسٹیج پر تھا تو انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ نیب گرفتاری کی وجوہات نہ بتا سکا تو یہ ہارڈشپ کا کیس بن جائے گا. چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کیس تب ہی بنے گا جب آمدن اور اثاثوں میں تضاد ہو. انھوں نے مزید کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم غیر ضروری ہوئی ہے، نیب کو اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے لوگوں کو گرفتار کرنے سے روکنے کے لئے ترمیم کی گئی ہو گی، احسن اقبال کی گرفتاری پرنیب کو عدالت کو
چیئرمین نیب کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیارات کتنے ہیں، اس کا بھی تعین ہونا چاہیے، نیب کو کچھ وقت دیتے ہیں وہ تیاری کر کے آ جائیں، یہ عدالت اس کیس پر ایک تفصیلی فیصلہ دیگی.
دوسری طرف سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ یب لوگوں کی تضحیک نہیں کر سکتا، کیا آپکو معلوم ہے کہ اس حراست میں رکھنے کا اثر کیا پڑتا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نےدرخواست ضمانت پر سماعت 20فروری تک ملتوی کردی اور آئندہ سماعت پر نیب کو تیاری کرکے آنے کا حکم دے دیا.
واضح رہےکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کو 23 دسمبر کو نیب نے گرفتار کیا گیا تھا.نیب دستاویز میں کہا گیا تھا کہ نارووال اسپورٹس کمپلیکس سٹی منصوبے کی لاگت 34.410 ملین روپے سے بڑھا کر 97.520 ملین کی گئی اور لاگت بڑھانے کی کسی مجاز اتھارٹی یا فورم سے منظوری نہیں لی گئی۔ نیب دستاویز کے مطابق سی ڈی ڈبلیو پی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھانے کی منظوری نہ لینا اور ایسا خود کرنا بدنیتی ہے، منصوبہ پلاننگ کمیشن کے ڈیویلپمنٹ مینوئل میں درج قابل عمل اسٹڈی کے بغیر شروع کیا گیا، 50 ملین سے زیادہ کی لاگت کا اسکوپ بڑھانے کیلئے قابل عمل ہونے کی اسٹڈی ضروری ہے۔ دستاویزمیں بتایا گیا ہے کہ منصوبہ ریکارڈ کے ساتھ 15 مارچ 2012 کو پنجاب حکومت کے حوالے کیا گیا، پنجاب اسپورٹس بورڈ کو منصوبے کی حوالگی کے باوجود احسن اقبال نے اس پر وفاقی حکومت کے فنڈزخرچ کیے۔
رہنما مسلم لیگ ن پر الزام لگایا گیا ہے کہ احسن اقبال نے بدنیتی سے منصوبے کا دائرہ کار بڑھایا جس کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔