نیا ڈی جی ISI: عمران خان کون سا جن نکالنے والے ہیں؟


نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر پیدا ہونے والے ڈیڈلاک کے بعد سب کی نظریں وزیراعظم عمران خان پر جمی ہوئی ہیں اور اس بات کا انتظار ہے کہ وہ کونسا جن نکالنے والے ہیں؟ آیا وہ آئی ایس پی آر کے اعلان کردہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے نام کی حتمی منظوری دیں گے یا اپنی مرضی کا کوئی نیا ڈی جی تعینات کریں گے؟
ان حالات میں 14 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہونے والا تحریک انصاف کی پارلیمانی کا پارٹی کا اجلاس کافی اہمیّیت اختیار کر گیا تھا۔ اجلاس سے قبل حکمران اتحاد کے اجلاس کی صدارت کے لیے وزیراعظم عمران خان پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر ایک پہنچے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ سب کا ایک ہی سوال تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر کب ہوگا؟ تاہم وزیراعظم قہقہہ لگاتے ہوئے اجلاس میں چلے گئے۔ مگر سب سے دلچسپ ردِ عمل وزیر دفاع پرویز خٹک کا رہا۔ ان کی آمد پر ایک صحافی نے جب ان کی خیریت دریافت کی تو اُنھوں نے جواب میں بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور پھر اس کے بعد صحافیوں نے جو بھی سوال کیا، وہ سنتے رہے اور آگے بڑھتے گئے۔ اُنھوں نے کسی بھی سوال کے جواب میں خاموشی نہیں توڑی۔
اجلاس سے پہلے حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے موبائل فونز ہال میں داخلے سے پہلے ہی باہر رکھوا دیے گئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اجلاس میں ہونے والی گفتگو کتنی اہم ہے۔ایک طویل عرصے کے بعد کسی حکومتی اجلاس کے باہر صحافیوں کی اتنی گہما گہمی تھی۔ عام طور پر ایسی ہلچل وزیراعظم کے انتخاب یا تحریک عدم اعتماد وغیرہ کے دنوں میں ہی نظر آتی تھی۔صحافی بھی چہ مہ گوئیاں کر رہے تھے کہ ’آج وزیراعظم اجلاس میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے کیا کہنے والے ہیں۔‘ اس سے پہلے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نہ چاہتے ہوئے بھی یہ بیان داغ چکے تھے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیر اعظم کی اتھارٹی ہے۔ بعد ازاں حکمران جماعت کے چیف وہپ عامر ڈوگر کی طرف سے وزیراعظم سے منسوب سخت باتوں کی وجہ سے یہ تاثر عام ہو چکا ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ختم ہوا تو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے تقریبا ہر وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم کے مطابق سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے سب معاملات طے ہو جائیں گے مگر صحافیوں کی تشفی نہیں ہو رہی تھی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد وزیراعظم کے ساتھ چلتے ہوئے اجلاس سے باہر نکلے۔ وزیراعظم تو صحافیوں کی جانب سے اونچی آواز میں سوال پوچھنے کے باوجود جواب دینے کے لیے نہ رکے تاہم شیخ رشید صحافیوں کی طرف آ گئے۔انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں بنیادی طور پر افغانستان کے بارے میں بریفنگ دی حالات کیسے ہیں ہم نے کیسے کرنا ہے مگر صحافیوں کی زبان پر ایک ہی سوال تھا ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر کیا پیش رفت ہوئی۔ شیخ رشید نے کہا کہ اجلاس کے دوران وزیراعظم نے بتایا کہ سول ملٹری تعلقات ٹھیک ہیں ہماری اور آرمی کی بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے۔ ’ہم سیاسی طور پر سوچتے ہیں اور ان کا اپنا طریق کار ہے۔‘ تاہم جب ان سے پوچھا گیا اگر سب اچھا ہے تو پھر وزیراعظم نے کس کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا ہے؟ اس پر سینیئر سیاستدان نے تھوڑا سوچا اور کہا ’وہ وزیراعظم جا رہے ہیں ان سے پوچھ لیں۔‘
اس پر ایک خاتون صحافی نے پوچھا کہ یہ تعیناتی اتنی متنازع کیوں بنائی جا رہی ہے تو شیخ رشید بولے ’وزیراعظم سیاسی سطح پر سوچ رہے تھے کیونکہ ان کے کچھ سیاسی نظریات تھے دوسری طرف اصولی مسئلے تھے کہ آرمی کا طریق کار کیا ہے۔‘ ان کی اس بات کے دوران جب ایک صحافی نے ان سے پوچھ لیا کہ کیا وزیراعظم اصولی موقف پر کھڑے ہیں تو شیخ رشید غصے میں آ گئے اور قدرے جھنجھلاہٹ سے صحافی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ’ڈونٹ آسک سلی کوئسچن‘ یعنی احمقانہ سوال مت پوچھو۔ ایک اور سوال پر کہ کیا وزیراعظم ڈی جی آئی ایس آئی کے امیدواروں کا انٹرویو کریں گے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کوئی بات پارلیمانی اجلاس میں نہیں ہوئی۔
دوسری طرف وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اجلاس سے باہر نکلے تو ان سے بھی وہی سوال ہوا۔ تاہم انہوں نے آئی ایس آئی کے معاملے پر براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے صحافیوں کو ٹوک دیا اور کہا کہ مجھے اپنی بات کرنے دیں۔ اسکے بعد انہوں نے اشارتا کہا کہ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ان کے لیے یہی کہوں گا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ اپوزیشن کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ایسا لگ رہا تھا کہ تمام اراکین کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے متعلق کسی سوال کا جواب نہ دیں۔
تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا سے بات کی اور پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے پر بھی صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیے۔ فواد چوہدری نے اس تاثر کی تردید کی کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پر کوئی اختلاف ہے۔اُنھوں نے کہا کہ فوج اور وزیرِ اعظم ہاؤس ایک پیج پر ہیں۔ ان کے ساتھ موجود بونگی باز شہباز گل نے کہا کہ ’جوں ہی وزیرِ اعظم دستخط کریں گے، وزیر اطلاعات بتا دیں گے۔‘ فواد نے بتایا کہ وزیرِ اعظم کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ‘تقرر جلد ہو جائے گا اور یہ فیصلہ اعتماد کی فضا میں ہو گا۔’
14 اکتوبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی اراکین ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ کانوں میں سرگوشیاں کرتے رہے، تاہم اس حوالے سے حکومتی اراکین نے بلا کی خاموشی اختیار کیے رکھی۔
پارلیمان کے داخلی دروازوں اور راہداریوں میں موجود صحافیوں کی کوشش تھی کہ کابینہ کے کسی نہ کسی رکن سے پوچھا جائے کہ اس حوالے سے کب وزیرِ اعظم ہاؤس نوٹیفیکیشن جاری کرے گا اور آخر آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے درمیان اختلاف کس نہج پر پہنچ گیا ہے۔

Back to top button