کیا حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے سے پیچھے ہٹنے والی ہے؟

حکومتی اتحادیوں و اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی بارے حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے مؤقف میں تبدیلی آ گئی ہے اور شہباز حکومت تحریک انصاف پر پابندی کے فیصلے سے پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے جا رہی ہے۔پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے فوراً بعد ہی پی ٹی آئی سمیت حزبِ اختلاف کی بعض سیاسی جماعتوں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا تھا اور اسے حکومت کا جذبات میں کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔ تاہم ایک روز بعد ہی منگل کو وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اس فیصلے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس حوالے سے اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں اور سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ  پی ٹی آئی پابندی سے مزید مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو اس فیصلے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک انصاف پر پابندی کیلئے حکومت کا کیس بہت کمزور ہے، اسی لئے کوئی بھی جماعت اس حوالے سے اپنے منہ پر اس کالک کو ملنا نہیں چاہتی،تاہم پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہ ہوں تاہم پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق جلد بازی میں کئے جانے والے اعلان سے حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سینئر صحافی حامد میر کے مطابق پابندی کا اعلان پی ٹی آئی کو پیغام تھا اور حکومت نے یہ پیغام سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھیجا جس میں پی ٹی آئی کو سیاسی حقیقت قرار دیا گیا تھا۔حامد میر کے مطابق مخصوص نشستوں بارےعدالتی فیصلے کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان توہینِ عدالت ہے۔سینئر صحافی حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو دبانے کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ماضی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی تھی۔ لیکن آج وہ جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں موجود ہے اور وہ پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 2021 میں تحریکِ لبیک پر پابندی لگائی تھی۔ لیکن آج ٹی ایل پی دھرنے دے رہی ہے اور پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں حکومت کشیدگی بڑھا رہی ہے جس کا اسے کوئی فائدہ ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔ پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی اعلان کے بعد وزرا اور اتحادی جماعتوں کے بیانات سے حکومت کی سبکی ہوئی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے معاملات کو سلجھانے پر توجہ دے۔ دوسری جانب تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ حکومت ایک سیاسی جماعت پر پابندی کا اعلان کر کے آخری حد تک جا چکی ہے۔ اگر حکومت نے ایک بڑی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی تو وہ کسی اور نام سے آ جائے گی لیکن اس عمل سے نفرت اور سیاسی تقسیم میں مزید اضافہ ہو گا۔ سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے پی ٹی آئی کو بھی چاہیے وہ پیچھے ہٹے اور اپنی توپوں کا رخ اور لڑائی سیاسی میدان میں لڑے۔

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ بہت مشکل ہے، جمہوری ذہنوں کیلئے یہ فیصلہ قبول کرنا بہت مشکل ہوگا، ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کا کوئی اثر نہیں ہوا، پی ٹی آئی پابندی سے مضبوط ہوگی جبکہ حکومت کو نقصان ہوگا، یہ پابندی بھاری نوالہ ہوگا جسے نگلنا ن لیگ اور اتحادیوں کیلئے مشکل ہوگا، سپریم کورٹ کے نو ججوں نے تحریک انصاف کو پارٹی تسلیم کیا جس پر حکومت پابندی لگارہی ہے۔

اس حوالے سے سینئر صحافی فخر درانی کا کہنا تھا کہ اس وقت لڑائی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر سب آن بورڈ ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اتحادی جماعتیں اس معاملہ پر آن بورڈ نہ ہوں، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے مگر ان کی سنوائی نہیں ہورہی، پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان بھی مایوسی کے عالم میں کیا گیا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کا مقصد اسے دباؤ میں لانا ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، حکمران اپنی کارکردگی اور سیاست کے ذریعہ ہی عمران خان کو کارنر کرسکتے ہیں، نواز شریف بہتر سیاست اور شہباز شریف، مریم نواز بہتر حکمرانی کریں، عمران خان کو مظلوم بنانے سے زیادہ بڑا احسان ان پر کوئی اور نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جبکہ اپوزیشن جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے حکومتی فیصلے کو غیر منطقی قرار دیا۔دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی منگل کو ایک بیان میں پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا۔پی ٹی آئی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے پابندی کے حکومتی فیصلے پر تنقید کے بعد حکمراں جماعت نے اپنے مؤقف میں منگل کو اُس وقت لچک دکھائی جب وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا اور اس معاملے پر اتحادیوں سے مشاورت کی جائے گی۔اتحادیوں سے مشاورت کے بعد ہی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

Back to top button