بلندی سے پستی کا سفر
تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک بڑا آدمی تھا۔ دنیا کی ہر آسائش مجھے میسر تھی۔ میری کہی ہوئی ہر بات زبان زد ِ خاص و عام ہو جاتی تھی۔ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز میرے آگے پیچھے پھرتے تھے۔ اخبارات کے نمائندے بھی میری ٹوہ میں رہتے کہ موقع ملے تووہ میرے منہ سے نکلی ہوئی کسی بات کو اپنے اخبار کی ہیڈلائن بنا سکیں۔ مجھے اگر کبھی دو تین چھینکیں آجاتیں تووہ بھی خبر بن جاتی۔میں اپنے باطن میں ایک آزادمنش انسان تھا۔ مجھے اس طرح ہر وقت گھیراؤ میں رہنا پسندنہیں۔ میرا جی چاہتا تھاکہ میں ادّھے پہلوان کی دکان سے ”ادرِڑکا“ پیوں، پٹھان کے ٹھیلے سے مصالحہ لگی ابلی ہوئی ”چھلی“ کھاؤں، اپنی کار خود ڈرائیو کروں بلکہ کبھی کبھی میرا جی چاہتا تھا کہ موٹرسائیکل پرگھوموں پھروں ، سینما میں فلم دیکھنے کیلئے لائن میں لگ کر ٹکٹ خریدوں لیکن میری ان خواہشات کا پورا ہونا ممکن نہیں تھا کیونکہ میں ایک بڑا آدمی تھا، بڑا آدمی چھوٹے لوگوں میں اس طرح گھل مل نہیں سکتا!میرا مسئلہ صرف یہی نہیں تھا جومیں نے اوپر بیان کیا ہے بلکہ ایک مسئلہ اس کے علاوہ بھی تھا اوروہ یہ کہ میں اپنے اسٹاف کے نچلے درجے کے ملازم کو بھی برابر کی سطح پر ملنا چاہتا تھا لیکن جب کبھی میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر اچانک ان کے کمرے کی طرف جانکلتا تووہ ہنسنا بھول کر ایک دم مودب ہو جاتے بلکہ خوفزدہ نظرآنے لگتے۔ وہ صرف مجھ سے نہیں، میرے بچوں سے بھی اتنے مودب انداز میں ملتے تھے کہ مجھے شرم آنے لگتی۔ لیکن ایک دن میں نے سوچا کہ میں اپنی زندگی اپنی خواہشات کے برعکس گزار رہا ہوں، جب خدا نے مجھے سب کچھ دیاہے، میری تمام بڑی بڑی خواہشات پوری کی ہیں تو کیا مجھے شکرانے کے طور پر اس کے بندوں کے ساتھ غیرانسانی رویہ اختیار نہیں کرناچاہئے؟ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ جب مجھے یہ سب کچھ پسند بھی نہیں ہے توپھر یہ مصنوعی زندگی گزارنے کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ میں نے زندگی کا ایک طویل عرصہ یورپ میں گزارا ہے۔ وہاں بندہ و آقا میں یہ تمیز نہیں ہے۔ چنانچہ یورپ والوں کے اس رویئے کامیرے ذہن پر ایک مثبت نقش تھا۔ اس کے علاوہ میرے والدین کی تربیت نے بھی مجھے یہ بات سمجھائی تھی کہ تم لوگوں سے وہی سلوک کرو جس کی تم لوگوں سے اپنے لئے خواہش کرتے ہو لیکن طاقت اوراختیار کے مستقل نشے سے یہ تعلیمات میرے ذہن میں آہستہ آہستہ دھندلاتی چلی گئیں تاہم ضمیر کی ایک خلش سی تھی جو گاہے گاہے مجھے بے چین کرتی تھی چنانچہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں ویسی ہی زندگی گزاروں گا جیسی میں گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ میں بڑا آدمی ہوں برا نہیں ۔
یہ فیصلہ کرنے کے بعدمیں نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ میں نے ملازموں کو سلیوٹ مارنے، گاڑی کا دروازہ کھولنے اور اس نوع کے دوسرے ادب آداب سے پوری سختی کے ساتھ منع کردیا۔ چنانچہ اب میں دفترسے باہر نکلتا تھا تومیرے ملازم اپنی گفتگو میں محو رہتے تھے، کوئی آگے بڑھ کرمیرے ہاتھ سے میرا بریف کیس نہیں پکڑتا تھا، نہ کوئی میری کار کا دروازہ کھولتا اورنہ مجھے کوئی سلیوٹ مارتا، میں ان کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں سلام کرتا، کوئی مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا تو پوری گرم جوشی سے اس سے مصافحہ کرتا،اب میں ان کی خوشی اورغمی میں بھی شریک ہونے لگا تھا اور یوں وہ بھی مجھے کوئی آسمانی مخلوق سمجھنے کی بجائے اسی کرہ ٴ ارض کاایک باشندہ سمجھنے لگے تھے۔ میں نے محسوس کیاکہ اب وہ میرا ظاہری ادب واحترام ہی نہیں کرتے بلکہ دل سے میرا احترام ہی نہیں مجھ سے محبت بھی کرنے لگے ہیں۔ مجھے لگاجیسے میں پہلے سے بہت بہتر زندگی بسر کر رہا ہوں۔ پہلے میں خوشیوں کی تلاش میں رہتا تھا، اب خوشیاں میری تلاش میں رہتی تھیں۔ میرے ضمیر کی خلش بھی مٹ گئی تھی، میری نیند بھی بہت پرسکون ہوگئی تھی، میں اب شاید واقعی بڑا آمی تھا!
لیکن میرا یہ معمول ایک ماہ سے زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ میرے ذہن میں یہ خیال کلبلانے لگا کہ میں نے جو اتنی دولت کمائی ہے کیا یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ میں ایک عام آدمی کی زندگی بسر کروں، میں گھر سے نکلوں توکوئی ملازم مجھے کار تک چھوڑنے بھی نہ آئے، دفتر پہنچوں تو میرا پرتپاک استقبال نہ ہو، مجھ سے نہ کوئی ڈرے،نہ کوئی بدکے بلکہ ہر کوئی مجھے اس طرح ٹریٹ کرے جیسے میں انہی میں سے ایک ہوں، تزک واحتشام ، دبدبہ ، امتیازی حیثیت، میں سب سے محروم ہو گیاتھا۔ اب لوگ مجھ سے ڈرتے نہیں تھے، محبت کرتے تھے مگر دبدبہ بھی توکوئی چیز ہے جس سے میں محروم ہو گیا تھا۔ میں اپنے طبقے کے لوگوں کی نظروں سے گر گیا تھااور وہ مجھے حقیرسمجھنے لگے تھے۔ میں نے سوچا کتابی باتیں اور ہوتی ہیں اور عملی زندگی کے حقائق کچھ اور… چنانچہ میں نے واپس اپنی پہلی والی زندگی میں لوٹنے کا فیصلہ کیا!
سومیں ایک بارپھر وہی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق تھا جس سے در و دیوار لرزہ براندام رہتے تھے، جس سے گفتگو کے دوران اس کے رعب کی وجہ سے مخاطب کی زبانیں گنگ ہو جاتی تھیںجس سے ملاقات کے لئے اس کے عزیز و اقارب کوبھی ٹائم لینا اور مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ میں اپنی آمد پر چہروں کی اڑی ہوئی رنگت دیکھتا تھا تو خوش ہوتا تھا، کسی کو تھپکی دیتاتو مارے مسرت کے اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے اور میری ناخوشی کے کسی اظہارپر اس کی نیندیں اڑ جاتی تھیں۔ میں نے اپنے رویئے میں اس تبدیلی اور لوگوں کو دوبارہ اس کا عادی بنانے کے مراحل ایک دو دنوں ہی میں طے کرلئے تھے۔ اوریہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک چھوٹا آدمی تھا!