ذوالفقار علی بھٹو کی 95 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 95 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

والفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کی تاریک صبح راولپنڈی جیل میں پھانسی کی صورت میں دی گئی۔ بھٹو کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے پاکستان کو 1973 کا متفقہ آئین دیا جو کہ آج بھی تمام تر شرارتوں اور ملاوٹوں کے باوجود قائم ہے۔ لیکن اس قومی یکجہتی کو قائم رکھنے کی دستاویز بنانے کے کارنامے کی سزا تو اس کے معمار کو ضرور ملنا تھی چناچہ انہیں ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

وزیر اعظم بھٹو کا دوسرا بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے امیر عبداللہ خان نیازی کی زیر قیادت ہتھیار ڈالنے والے 90 ہزار قیدیوں کو بھارتی قید خانوں سے رہائی دلوائی اور انہیں اپنے خاندانوں سے واپس ملایا۔ انسانیت کی یہ عظیم خدمت یقینا سزا کے لائق تھی سو بھٹو وہ سزا ہنسی خوشی قبول کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔1971 کی جنگ میں بھارت نے مغربی پاکستان میں 13 ہزار مربع میل کے قریب علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جسے ایک کامیاب سفارت کاری کے بعد واگزار کرایا گیا۔ پاکستانی مفتوحہ علاقے جنگ کے صرف کچھ ماہ بعد واپس لینا یقینا ایک بہت بڑی بین الاقوامی سفارتی کامیابی تھی اور اس کے لیے وزیر اعظم بھٹو کو سزا دینا لازم تھا سو وہ کسی بھی معافی کی اپیل کیے بغیر تختہ دار کی طرف روانہ ہوئے۔

انہوں نے شکست خوردہ ملک اور قوم کو سہارا دیا اور ان میں شکست اور ملک کے ٹوٹنے سے مایوسی کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ایسی کرشمہ ساز شخصیت کو اس عظیم جدوجہد اور اس میں کامیابی کا معاوضہ تو ادا کرنا تھا۔مسلمان ملکوں میں اتحاد، ان کی بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنا اور اسلامی ممالک کی تنظیم کا لاہور میں اجلاس بلا کر پاکستان کا نام شکست اور ٹوٹنے کے صرف دو سال بعد بلند کرنا ایک اور بڑا کارنامہ تھا جو کہ قابل سرزنش تھا اور جیل کی تاریکی میں تختہ دار کا حقدار بنا۔ فوج کی ناموس کی حفاظت کرتے ہوئے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو سرعام نہ کرنا وزیر اعظم بھٹو کا ایک اور دانائی پر مبنی فیصلہ تھا۔ اس سے فوج کے وقار اور اعتماد میں اضافہ ہوا لیکن ایک منتقم المزاج جنرل اسے سمجھنے سے قاصر رہا اور افواج پاکستان کے محسن کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ شکست خوردہ ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے ایٹمی طاقت بننے کا عزم اور اس پر تیزرفتاری سے کام ایک اور بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کے لیے جدوجہد اور مالی و انسانی وسائل کی فراہمی جس نے ملک کو ایٹمی طاقت بننے میں اہم کردار ادا کیا یقینا قابل سرزنی تھا سو وہ سر، ذوالفقار علی بھٹو نے پیش کر دیا۔

1977 کے حالات پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چار اپریل 1979 کو سزائے موت پانے والے ذوالفقار علی بھٹو بہت پہلے اپنے لیے ایک پُرخطر راستے کا انتخاب کر چکے تھے۔ 1965 میں پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر مورس جیمز بھٹو کے زیرِ عتاب رہے۔ مورس نے بھٹو کی بھارت کے خلاف پائے جانے والے جذبات کے بارے میں لب کشائی کی تھی جس کی وجہ سے بھٹو ان سے ناراض ہو گئے تھے۔ مورس نے اپنے ایک مراسلے میں پاکستان کے تیزی سے نمایاں ہونے والے اس سیاست دان کے بارے میں دلچسپ تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ بھٹو کئی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں بائبل میں مذکور کردار لوسیفر سے تشبیہہ دیتے ہوئے born to be hanged یا پھانسی پر لٹکنے کے لیے ہی پیدا ہونے والا شخص قرار دیا تھا۔
بھارت سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن اور متعدد کتابوں کی مصنف سیدہ سیدین حمید نے 2018 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کے حالات پر کتاب لکھی تو اسی فقرے کو کتاب کا عنوان بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ملک کے بانی محمد علی جناح کے بعد بھٹو اب تک کے واحد لیڈر ہیں جو اتنی بڑی تعداد میں عوام کو اپنے گرد جمع کرنے میں کام یاب رہے۔لیکن اپنی تمام تر ذہانت اور طلسماتی شخصیت کے ساتھ ساتھ وہ ایک یونانی المیے کے ہیرو ہیں جو ایک بڑا انسان یا دیوتا ہونے کے باجود اپنی خوبیوں، خامیوں، اور تضادات کا شکار ہو جاتا ہے۔ سیدہ سیدین حمید کا کہنا ہے ک بھٹو کو ان کی اکیسویں سالگرہ پر ان کے والد سر شاہنواز بھٹو نے نیپولین کی سوانح عمری تحفے میں بھجوائی تھی اور اسی دن انہیں کارل مارکس کا ایک معروف پمفلٹ بھی تحفے میں ملا۔

وہ اسے بھٹو کی زندگی میں ایک علامتی لمحہ قرار دیتی ہیں۔ سیدہ سیدین کا کہنا ہے کہ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کی جانب ان کے رجحان نے انہیں عوام کو سوال کرنے کا حوصلہ دینے اور اقتدار کا سرچشمہ قرار دینے کی سیاسی راہ پر ڈالا۔ذوالفقار علی بھٹو کی المناک شہادت نے پاکستانی معاشرے کو سیاسی طور پر مکمل تقسیم کر دیا اور یہ تقسیم 44 سال بعد بھی اس ملک کو سیاسی استحکام سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ بھٹو کے جوڈیشل مرڈر نے ملک کے کلیدی اداروں پر عوام کے اعتماد کو بھی بری طرح متزلزل کر دیا۔ جس طرح عدالتوں نے اس مقدمے کو چلایا اور جس طرح اس کیس کے دوران قانون کی دھجیاں بکھیری گئیں، وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ 44 برس پہلے تختہ دار پر لٹکا دیا جانے والا بھٹو آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button