ثابت ہوگیا فلسطینی صدر یاسر عرفات کو زہر دے کر مارا گیا


تازہ تحقیق سے یہ بات اب ثابت ہوگئی ہے کہ فلسطین کی تحریک کے آزادی کے روح رواں اور پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات طبعی موت نہیں مرے تھے بلکہ ان کو مخالفین کی جانب سے زہر دے کر مارا گیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے سائنسدانوں نے انتہائی عرق ریزی سے تحقیقات کرتے ہوئے یہ کھوج لگایا ہے کہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے زہر دے کر قتل کیا گیا تھا۔ تاہم اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ اس قتل میں کون لوگ ملوث تھے۔ صیہونی طاقتوں کے خلاف اپنی زندگی بھر کی جدوجہد سےتاریخ کا ایک لافانی کردار بن جانے والے فلسطینی حریت پسند اور سابق صدر یاسر عرفات 11 نومبر 2004 کو 75 برس کی عمر میں فرانس میں انتقال کر گئے تھے لیکن ڈاکٹرزان کی موت کی وجہ جاننے میں ناکام رہے تھے اور ان کی بیوہ کی درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے تدفین کے وقت انکی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ان کی موت کے محرکات کا تعین کرنے کے لئے نومبر2012 میں ان کی لاش کی باقیات کو جمع کر کے اس سے نمونے لیے گئے تھے تاکہ ان کو زہر دیے جانے کے حوالے سے موجود شکوک و شبہات کو ختم کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ عرفات کو زہر دیئے جانے کا معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب روس کے سابق خفیہ ایجنٹ اور روسی حکومت کے سخت ترین ناقد الیگزینڈر لٹوی نینکو کو 2006 میں اسی طرح زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ بعد ازاں دی لینسٹ نے ‘انسٹیٹیوٹ آف ریڈی ایشن فزکس اور یونیورسٹی سینٹر آف لیگل میڈیسن ان لاسین’ کے آٹھ سائنسدانوں کی جانب سے مرتب کردہ ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ عرفات کے کپڑوںل سے پولونیم کے زہریلے اجزا ملے ہیں جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ انہیں ختم کرنے کے لیے زہر دیا گیا تھا۔
حال ہی میں الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے اس حوالے سے منظر عام پر لائی گئی 108 صفحات کی ایک رپورٹ کے مطابق یاسر عرفات کی لاش کے ٹیسٹ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی موت دراصل پولونیم 210 نامی زہر دیے جانے کے باعث ہوئی۔ واڈوئس یونیورسٹی ہسپتال کے 10 ماہرین کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی رہنما کی باقیات کی جدید سائنسی طریقے سے کی گئی تفتیش سے ان کے جسم میں پولونیم- 210 اور لیڈ-210 کی بڑی مقدار کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ عرفات کی ہڈیوں میں پولونیم کی مقدار 20 گنا زیادہ تھی جس سے پرانی رپورٹ کے ان مندرجات کی بھی نفی ہو گئی جس میں کہا گیا تھا کہ پولونیم کی زیادہ مقدار اطراف میں موجود سگریٹ کے دھویں کے باعث تھی۔
ان تازہ رپورٹس کے بعد یاسر عرفات کی بیوہ سوہا نے کہا ہے کہ اگر زہر دیے جانے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ ایک عظیم لیڈر کے قتل اور سنگین سیاسی جرم کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم یہ کس نے کیا، لیکن جس نے بھی کیا غلط کیا۔
یاسر عرفات کی موت کی تحقیقات کے سلسلے میں فلسطین کے آفیشل انچارج توفیق تراوی نے کہا ہے کہ انہیں سوئس لیبارٹری کی تفتیشی رپورٹ مل چکی ہے تاہم انہوں نے اس کے حوالے سے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔ تاہم خیال رہے کہ فلسطینی حکام کی جانب سے اس حوالے سے تعینات کی گئی ایک علیحدہ روسی ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ پچھلے برس نومبر میں دے دی تھی۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ جن نمونوں کو جانچا گیا، رپورٹ کے مطابق ان میں بڑی مقدار میں پولونیم موجود ہے تاہم انہوں نے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال فلسطینی رہنما کی لاش کی باقیات سے 60 نمونے لیے گئے تھے تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا انہیں زہر دیا گیا تھا یا نہیں۔ ان نمونوں کو عرفات کی بیوہ کی درخواست پر روسی اور سوئس تفتیش کاروں کے اور اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے فرانسیسی ٹیم کے درمیان تقسیم کر دیا گیا تھا۔
یاسر عرفات کا پورا نام ’محمد یاسر عبد الرحمان عبد الرؤف عرفات ہے جو اپنی کنیت ابو عمار اور مختصر نام یاسر عرفات سے مشہور تھے۔ وہ 24 اگست 1929 کو مصر میں پیدا ہوئے، یاسر عرفات کے والد کا نام عبد الرؤف القدوا الحسینی تھا،جن کا تعلق فلسطین کے علاقے غزہ سے تھا،انہوں نے 25برس تک مصر میں اپنی زمینوں کے حقوق کی جنگ لڑی لیکن ناکام رہے، وہ ٹیکسٹائل کا کاروبار کرتے تھے، یاسر عرفات کی والدہ زاہوا عبد السعود فلسطین کے شہر یروشلم سے تعلق رکھتی تھیں اور 1933ء میں گردوں کی تکلیف کے باعث دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ اس وقت یاسرعرفات کی عمر صرف چار برس تھی۔ یاسر عرفات پہلی مرتبہ فلسطین شہر یروشلم سات سال کی عمر میں اس وقت پہنچے جب ان کے والد نے ان کو ان کے بھائی فتحی کے ساتھ اپنے انکل کے گھر رہنے کے لیے بھیج دیا کیونکہ وہ اپنے سات بچوں کی پرورش کرنے میں مشکلات کا شکار تھے۔1944ء میں یاسر عرفات نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور1950ء میں گریجویشن کی،اس کے بعد یاسر عرفات یہودیوں کی جانب سے نشر کی جانے والی کتب اور خصوصاً صیہونزم کے بانی تھیوڈر ہرزل کے نظریات کا مطالعہ کرتے رہے۔جبکہ دوسری طرف یاسر عرفات عرب قومیت کا ایک بہادر سپاہی بھی بن کر ابھر رہا تھا اور فلسطین پر انگریزوں کے تسلط کے حوالے سے بیت المقدس کے دفاع کے لیے بنائی جانے والی ملیشیا میں اسلحہ اسمگل کرنے جیسی اہم ذمے داریاں بھی انجام دے رہے تھا۔ 1948ء میں عرب اور اسرائیل جنگ کے دوران یاسر عرفات یونیورسٹی چھوڑ کر اسرائیلی افواج کے خلاف جہاد میں فلسطینی گروہوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ایک طرف عرفات مسلمان فدائین میں اہم ذمے داریاں انجام دے رہے تھے جبکہ دوسری طرف انھوں نے اخوان المسلمون میں شمولیت بھی اختیار کر لی۔یاسرعرفات غزہ میں ایک اہم ترین محاذ پر مصری افواج کے ہمراہ اسرائیلیوں کے خلاف جنگ میں نبرد آزما رہے اور 1949ء میں جب اسرائیلی افواج جنگ پر بھاری ہونے لگیں تو یاسر عرفات وسائل کی کمی اور ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے مصر واپس چلے گئے۔ یاسر عرفات نے دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی طلباء کی جماعت کی قیادت سنبھال لی۔بعد میں سوئز کینال پر مصری افواج کے ساتھ معرکوں میں مصروف رہے۔ یاسر عرفات ایک مجاہد ہونے کے ساتھ ساتھ الفتح نامی فلسطینی پارلیمانی جماعت کے بانی بھی رہے اور فلسطین کی آزادی کی خاطر ان گنت خدمات انجام دیں اور دس سال فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یاسر عرفات کی پوری زندگی مجاہدین کے ساتھ گزری اور وہ تادم مرگ غاصب اسرائیل کے خلاف برسرپیکار رہے، انہیں تاریخ میں ایک عظیم فلسطینی رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button