جانئے دنیا میں رائج شادی کی انوکھی رسومات بارے

دنیا کے مختلف ممالک میں شادی کی الگ الگ رسومات ہوتی ہیں۔ یہ رسومات مقامی افراد کے لیے تو روزمرہ کی بات ہوتی ہیں لیکن ان سے اجنبیت رکھنے والے لوگ انہیں عجیب و غریب سمجھتے ہیں۔ آئیے دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام میں رائج ایسی ہی کچھ رسومات کے بارے میں جانتے ہیں۔
کرغستان میں دلہن کو اغوا کر کے شادی کرنے کی رسم رائج ہے۔ ایک قدیم عقیدے کے مطابق کرغستان میں شادی کے دن آنسو بہانا خوشحال زندگی کی ضمانت سمجھا جاتاہے۔ شادی میں رونے دھونے کا بندوبست دلہن کے اغوا سے ہوجاتا تھا۔تاہم1991ء میں اسے غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ لیکن پابندی کے باوجود اب بھی کرغستان کے کئی قبائل میں یہ رسم اب بھی رائج ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں شادی سے پہلے دلہا اور دلہن پر ہر قسم کا بچا کچھا کھانا، گلے سڑے انڈے اور مردہ مچھلی ،کچرا وغیرہ پھینکا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر شادی کرنے والا جوڑا خود پر پھینکے جانے والے اس کچرے کو برداشت کر سکتا ہے تو وہ یقیناً اپنی آئندہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا بھی آسانی سے کر سکتا ہے۔
چین میں توجیا لوگوں کی ایک روایت ہے کہ شادی سے ایک ماہ قبل سے ہی دلہن کا روزانہ ایک گھنٹہ تک رونا ضروری ہے۔ رونے کے اس سیشن میں دلہن کے خاندان کی خواتین ماں اور دادی بھی اس کا ساتھ دیتی ہیں۔ 30 دن تک رونے کے سیشن کے بعد شادی والے روز پورا خاندان جم کر روتا ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین کا مختلف آوازوں کے ساتھ رونا خوشی لانے کا سبب بنتا ہے۔
موریطانیہ میں دیوقامت موٹی دلہن کو خوش بختی اور خوشحال شادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس مقصد کے حصول کے لیے موریطانیہ کی خواتین کو شروع سے ہی زبردستی زیادہ کھلایا پلایا جاتا ہے جس سے بعض اوقات صحت کے شدید مسائل اور نہ ختم ہونے والی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
فجی میں مرد حضرات کو شادی کرنے کے لیے پہلے دلہن کے باپ کو وہیل کے دانتوں کا نہایت غیر معمولی تحفہ پیش کرنا پڑتا ہے۔
چین کے علاقے داؤر میں شادی سے پہلے جوڑے کسی مرغے کو کاٹ کر اس کا جگر دیکھتے ہیں۔اگر اس کا جگر صحتمند ہو تو وہ شادی کے لیے کوئی ایک دن مقرر کر لیتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ صحتمند جگر والے مرغے کی تلاش جاری رکھتے ہیں۔
انڈونیشیا کے جزیرے بورنیو کے شمال میں آباد قبیلہ "ٹیڈونگ” میں نئے شادی شدہ جوڑے پر تین دن تک رفع حاجت کی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خاندان کے افراد تین دن تک جوڑے کی کڑی نگرانی کرتے ہیں، اس لیے دونوں میاں بیوی اس دوران پانی اور غذا کی کم مقدار لیتے ہیں۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ رسم ادا نہ کی جائے تو ان کے ہاں مردہ بچے پیدا ہوں گے یا شادی ٹوٹنے کا خدشہ رہے گا۔
چین میں جب دولہا اپنی دلہن کو لینے کے لیے آتا ہے تو اسے سب سے پہلے راستے میں دلہن کی ناراض سہیلیوں کی دیوار کو توڑنا پڑتا ہے جو کہ اس کا راستہ چھوڑنے کے لیے اس سے رقم کا مطالبہ کرتی ہیں اور عجیب و غریب فرمائشیں پوری کرواتی ہیں۔ اس سب کا مقصد صرف دلہن کے لیے اس کی محبت کا امتحان لینا ہوتا ہے۔
کانگو میں شادی کو ایک باوقار و سنجیدہ رشتہ تصور کیا جاتا ہے لہذا شادی کے دوران دلہا اور دلہن دونوں کو ہنسنے یا مسکرانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
بھارت اور پاکستان میں شادی کے روز دلہن کی بہنیں یا سہیلیاں دلہا کا جوتا چھپا لیتی ہیں اور اس کے بدلے میں دلہا سے رقم کا تقاضا کرتی ہیں۔ جبکہ بھارت کے کچھ حصوں میں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ ایک مخصوص فلکیاتی مدت کے دوران پیدا ہونے والی لڑکی منحوس ہوتی ہے اور اپنے پہلے شوہر کی موت کا باعث بنتی ہے۔اس لیے اس نحوست سے بچنے کے لیے پہلے اس لڑکی کی شادی ایک درخت سے کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد اس درخت کو کاٹ کر گرا دیا جاتا ہے۔
روم اور اٹلی سے شروع ہونے والی ایک رسم کے شادی شدہ جوڑےدریا کےپل پر آکر یہاں موجود جنگلے کے ساتھ اپنے اپنے سجے سجائے تالے لگاتے ہیں اور چابی کو کہیں دور پھینک دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایسا کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ان کی آپس کی محبت ہمیشہ کسی بند تالے کی مانند دلوں میں مقید رہے گی۔حیرت انگیز طور پر ان پلوں پر جمع ہونے والے تالوں کا وزن کئی ٹن بھی ہوجاتا ہے۔
پورٹو ریکو میں شادی کی تقریب میں ایک گڑیا کو دلہن کی مانند سجا سنوار کر تحائف اور دیگر سامان کے درمیان میز کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔ تقریب کے اختتام پر مہمان حضرات ان اشیا کو تبرک کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
عربی، افریقی، بھارتی و پاکستانی خواتین شادی کے دن سے پہلے اپنے ہاتھوں، بازوؤں، اور پیروں پر مہندی سے خوبصورت نقش و نگار یا ٹیٹوز بنواتی ہیں۔ یہ دیدہ زیب ڈیزائن دلہن کی نزاکت اور خوبصورتی میں اضافے کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔
پاپوا نیو گنی جنگل میں ایک قبیلہ ایسا پایا جاتا ہے جس کے مرد حضرات خواتین کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے جسموں پر پینٹ کرتے ہیں اور مصنوعی پر لگاتے ہیں۔ انہیں sing-sings کہا جاتا ہے اور نر پرندوں کی مانند اپنی مادہ کو رجھانے والا تصور کیا جاتا ہے۔
آرمینیا میں غیر شادی شدہ عورت ایک روایتی نمکین روٹی کا ٹکڑا کھاتی ہے تاکہ وہ خواب میں اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ سکے۔ وہاں کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ خواب میں اس کے لیے پانی لانے والا شخص ہی اس کا متوقع دولہا ہوگا۔
فرانس میں ایک قدیم رسم تھی کہ نئے شادی شدہ جوڑے کوکموڈ کی شکل کے برتن میں اپنی شادی کی بچی کچھی شراب پلائی جاتی تھی۔اب جدید دور میں فرانسیسی جوڑے اپنی شادی پر اس رسم کے لیے مجبور نہیں کیے جاتے۔
جنوبی کوریا میں روایت ہے کہ شادی سے ایک دن پہلے دلہے کے پیروں کے تلووں پر مچھلی ماری جاتی ہے۔ بعض اوقات مچھلی کے بجائے چھڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس عمل کا مقصد اس کے کردار کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہوتا ہے۔
چین کے بعض قبائل میں شادی کی ایک رسم یہ بھی ہوتی ہے کہ دولہا دلہن کو کندھوں پر اٹھا کر کوئلوں کے اوپر چلتا ہے.
چینی صوبے یغور میں شادی کے دن دلہا اپنی دلہن پر تین تیر برساتا ہے اور پھر ان تیروں کو توڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ یہ جوڑا ہمیشہ ایک دوسرے سے محبت کرے گا۔ لیکن واضح رہے کہ دلہن کو مارے گئے تیروں کا سر یا نوک نہیں ہوتی۔
جرمنی میں شادی کے موقع کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ دلہا اور دلہن سب مہمانوں کے سامنے کسی درخت کے تنے کو کاٹتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ وہ دونوں اپنی آئندہ زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
فلپائن میں دلہا دلہن بنفس نفیس خود تمام رشتہ داروں کے گھر جا کر انہیں اپنی شادی کی دعوت دے آتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو رشتہ دار بہت ناراض ہوتے ہیں اور شادی میں شریک بھی نہیں ہوتے۔