جسٹس فائز عیسیٰ کو دھمکی دینے والا مولوی بکری ہوگیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مبینہ طور قتل کی دھمکیاں دینے اور عدلیہ مخالف توہین آمیز گفتگو کرنے والے مولوی افتخارالدین نے ایف آئی اے میں ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں عدالت سے معافی مانگنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی یہ ویڈیو ایک نجی محفل میں بنائی گئی اور انکے علم کے بغیر سوشل میڈیا پر وائرل کر کے غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی محفل میں ان کی جانب سے کی گئی گفتگو کا مقصد کسی کو دھمکی دینا نہیں تھا اور وہ آئندہ سماعت پر عدالت کو بیان حلفی دے کر غیر مشروط معافی مانگ لیں گے۔
اگرچہ جسٹس فائز عیسی کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کرنے کا مطالبہ کرنے والے بھگوڑے مولوی افتخار الدین نے ایف آئی اے کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے یہ بھونڈا موقف اپنایا کہ وائرل ہونے والی ویڈیو ایک نجی محفل کی گفتگو ہے جس کا مقصد کسی کو ہراساں کرنا نہیں تھا۔ تاہم یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی ویڈیو ایسے وقت میں سامنے آئی جب سپریم جوڈیشل کونسل کے دس رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔ علاوہ ازیں مولوی افتخار کی ویڈیو محض نجی گفتگو نہیں بلکہ ایک باقاعدہ تقریر ہے جسے ریکارڈ کرنے کے بعد ایڈٹ کیا گیا اور جسٹس عیسی، آصف زرداری، نواز شریف کے ساتھ ساتھ اینکرزحامد میراورمحمد مالک کی سلائیڈز بھی چلائی گئیں۔ ویڈیو میں آرمی جنرلز سے درخواست کی گئی کہ وہ ان سب کو کرپٹ قرار دے کر کیفر کردار تک پہنچائیں حتی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سلائیڈز بھی چلائی گئیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے مولوی افتخار سے یہ ویڈیو ریکارڈ کروا کے نشر تو کردی لیکن جب سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ہمیشہ کی طرح نامعلوم افراد مولوی کو تنہا چھوڑ کر غائب ہوگئے اور مولوی کو بکری بننا پڑ گیا۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے 24 جون کو اسلام آباد کے سیکرٹریٹ تھانے میں شکایت درج کروائی تھی کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ایک شخص مولوی افتخار الدین مرزا نے ان کے شوہر کو قتل کی دھمکیاں دی ہیں لہٰذا پولیس نوٹس لے کر اس شخص کو گرفتار کرے، جس پر پولیس نے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت رپورٹ درج کرکے معاملہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو بھجوا دیا تھا۔واقعے کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد نے مولوی افتخار الدین مرزا کی مذکورہ ویڈیو پر ازخود نوٹس لے لیا تھا۔ 26 جون 2020 کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مذکورہ ازخود نوٹس کی پہلی سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ‘یہ سب کیا ہو رہا ہے؟’ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‘جی بالکل میں نے دیکھا ہے اور جج کی اہلیہ نے تھانے میں درخواست دی ہے۔ اب پولیس نے معاملہ ایف آئی اے کو بھیج دیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘ایف آئی اے کچھ نہیں کر رہی۔ ایف آئی اے کے پاس ججز کے دیگر معاملات بھی ہیں۔’ 10منٹ تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ‘ویڈیو میں ملک کے ادارے کو دھمکی دی گئی ہے۔ اس ادارے کے جج کا نام تضحیک آمیز انداز سے لیا گیا ہے، ریاستی مشینری نے ایکشن تاخیر سے کیوں لیا؟جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ‘ایسا کوئی میکنزم نہیں کہ ہر چیز کو مانیٹر کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا اس قسم کے مواد سے بھرا پڑا ہے، تاہم اب ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی شروع کر دی ہے۔’
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پر خود پیش ہو کر عدالت کی معاونت کریں۔ پہلی سماعت پر مولوی افتخار الدین کی جانب سے دو وکیل عدالت میں پیش ہوئے، جنہوں نے بینچ کو بتایا کہ مولانا صاحب خود عدالت پیش ہونے آئے ہیں، تاہم سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو کمرہ عدالت میں نہیں آنے دیا اور گرفتار کر لیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ‘پولیس ان کو کیوں پکڑ کر لے گئی؟ مولانا صاحب کو بلائیں۔’ پھر کچھ توقف کے ساتھ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ‘چلیں، ہم مولانا صاحب کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت دو جولائی تک ملتوی کر دی۔ قوی امکان ہے کہ دو جولائی کو مولوی افتخار عدلیہ سے غیر مشروط معافی مانگ لے گا۔