جسٹس وقار سیٹھ کے بعد ارشد ملک کی موت: سوالات اٹھنے لگے

فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو آیئن شکنی پر سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ اور میاں نواز شریف کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر وزارت عظمی سے نااہل کرنے والے احتساب کورٹ کے سابق جج ارشد ملک کی پراسرار حالات میں کرونا کے باعث اموات کے بعد اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی زندگیوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سازشی نظریہ رکھنے والے یہ سوال کر رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ ان دو جج حضرات کی ہی کرونا کے باعث پراسرار حالات میں اموات ہوئی ہیں جنہوں نے پاکستانی سیاست پر گہرا اثر چھوڑنے والے دو بڑے عدالتی فیصلے تحریر کیے تھے۔ ایک طرف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے تمام تر دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہوئے پاکستانی آئین توڑنے والے جنرل پرویز مشرف کو چوک میں پھانسی دینے کی سزا سنائی تھی تو دوسری طرف احتساب عدالت راولپنڈی کے جج ارشد ملک نے اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ لیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنائی تھی جس کے باعث وہ نااہل ہوگئے تھے۔ بعد ازاں مریم نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو دکھا دی جس میں وہ اپنے دوست ناصر بٹ کے ساتھ گفتگو میں اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ دیا۔
تاہم 15 روز کے اندر ہی اندر دونوں جج یعنی جسٹس وقار احمد سیٹھ اور ارشد ملک اچانک بظاہر کرونا کے باعث رخصت ہوگے۔ سازشی نظریہ رکھنے والے عناصر کا کہنا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ پوری عدلیہ میں سے صرف انہی دو ججوں کو کرونا وائرس لگا اور پھر وہ انتقال بھی کر گئے۔ سازشی نظریہ رکھنے والے اس امکان کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ ان دونوں ججوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے کسی سازش کے تحت کرونا وائرس میں مبتلا کیا گیا ہو۔ جب سوال کیا گیا کہ اسٹیبلشمینٹ کو جسٹس وقار سیٹھ اور اور جج ارشد ملک کی موت سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو سازشی نظریہ رکھنے والوں نے کہا کہ جسٹس وقار سیٹھ مشرف کو سزائے موت سنانے کے بعد بھی مسلسل ایسے فیصلے دے رہے تھے جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشانی کا باعث تھے اور اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی کہ جسٹس فائز عیسی کی طرح جسٹس وقار احمد سیٹھ کو بھی عدلیہ سے نکال باہر کیا جائے۔
یاد رہے کہ جنرل مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اور وزیر قانون فروغ نسیم نے علیحدہ علیحدہ پریس کانفرنسوں میں اس فیصلے کی مذمت کی تھی اور یہ اعلان کیا تھا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ایک سابق آرمی چیف کو سزائے موت سنانے کے جرم میں انکے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا جائے گا۔ لیکن بعد ازاں وکلا تنظیموں کے دباؤ کے پیش نظر حکومت اور ریاست اپنے اس مشن میں کامیاب نہ ہو پائی۔ لیکن پھر ایک روز اچانک جسٹس وقار احمد سیٹھ کی کرونا کے باعث وفات کی خبر سامنے آگئی۔ یاد رہے کہ جسٹس سیٹھ نے اپنی سپریم کورٹ میں ترقی نہ کیے جانے کے خلاف ایک پٹیشن دائر کر رکھی تھی اور یہ بات طے تھی کہ وہ اگلے چند ماہ میں سپریم کورٹ کے جج بن جائیں گے۔ تاہم ایسا ہونے سے پہلے ہی وہ اچانک ملک راہی عدم ہو گے۔
اسی طرح احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی بھی پراسرار حالات میں کرونا کے باعث اچانک وفات کو حیران کن قرار دیا جارہا ہے۔ یا درہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک 4 دسمبر کو مبینہ طور پر کرونا وائرس کے باعث اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ارشد ملک علاج کے لیے نجی اسپتال میں داخل تھے۔ ان کی حالت گزشتہ 2 روز سے انتہائی تشویشناک تھی اور وہ وینٹی لیٹر پر تھے۔ ارشد ملک کو خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ کے تحت نواز شریف کیس کا فیصلہ سنانے کا اعتراف کرنے کے نتیجے میں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ سازشی نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ ارشد ملک کو راستے سے ہٹانا اس لئے ضروری تھا کہ وہ اگر مستقبل میں ان عناصر کا نام آن ریکارڈ بتا دیتے جنہوں نے ان پر نواز شریف کو سزا دینے کے لیے دباؤ ڈالا تھا تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کے لیے شدید تر مشکلات پیدا ہو سکتی تھی۔
یاد رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد ارشد ملک اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور بالکل فارغ تھے۔ دیکھا جائے تو ارشد ملک کے زوال کے پیچھے دراصل ان گندی ویڈیوز کا بڑ اہاتھ ہے جو تقریباً اٹھارہ بیس سال قبل ملتان میں بنائی گئی تھیں۔ مریم نواز کی جانب سے ارشد ملک کی دباو میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے کی اعترافی ویڈیو سامنے لانے کے بعد انکوائری میں ارشد ملک نے تسلیم کیا تھا کہ 2000ء سے 2003ء میں ملتان تعیناتی کے دوران انکی گندی ویڈیو میاں طارق نے بنائی۔ دراصل میاں طارق نے اپنے بھائی کو منشیات کے تگڑے کیس میں سزائے موت سے بچانے کے لئے ارشد ملک کو شراب و شباب کے چکر میں پھنسا کر ویڈیوز بنائی تھیں جن کی مدد سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔ بعد ازاں یہ ویڈیوز ایجنسیوں کے ہاتھ آگئیں اور ان کے ذریعے ارشد ملک کو نواز شریف کے خلاف من پسند فیصلے کروانے کے لئے بلیک میل کیا گیا۔
ارشد ملک کے بقول ن لیگ نے بھی میاں طارق سے یہ ویڈیوز بھاری رقوم کے عوض خریدی تھیں اور انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی لیکن خفیہ ایجنسیوں اور اعلیٰ عدلیہ کے دبائو کے تحت وہ نواز شریف کو ریلیف نہ دے سکے۔ یاد رہے کہ جج ارشد ملک نے سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نوازشریف کو 24 دسمبر 2018ء کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا تھا۔6 جولائی 2019ء کو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز ایک مبینہ آڈیو ویڈیو ٹیپ سامنے لائی تھیں جس کے مطابق جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر یہ سزا سنائی تھی تاہم جج ارشد ملک نے اس کی تردید کرتے ہوئے ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔مریم نواز نے یہ مطالبہ بھی کیا تھاکہ چونکہ جج نے ویڈیو میں خود اعتراف کر لیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ارشد ملک کو ان کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج کے طور پر کام کرنے سے روکتے ہوئے اُنھیں لاہور ہائی کورٹ رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ارشد ملک ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد میں تعینات ہوئے اور وہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی ماتحت تھے۔
مذکورہ جج کی ویڈیو منظرعام آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے اُنھیں واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کی بجائے وفاقی وزارت قانون میں بطور او ایس ڈی رکھ لیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ ویڈیو سکینڈل سامنے آنے کے بعد ارشد ملک نے ایک بیانِ حلفی دیا تھا جس میں انھوں نے نواز شریف کے بیٹے سے ملاقات کا اعتراف کیا تھا۔جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ میاں نواز شریف کے مقدمے میں فیصلہ اپنے حق میں کروانے کے لیے جس ویڈیو کی بنیاد پر اُنھیں بلیک میل کیا جاتا رہا وہ ویڈیو میاں طارق نے بنائی تھی، بعد ازاں میاں طارق کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر فیصلے میں کہا تھا کہ ارشد ملک نے جو بیان حلفی جمع کروایا تھا وہ دراصل ان کا اعترافِ جرم تھا۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اُنھوں نے اپنے بیان حلفی میں مجرم نواز شریف کے بیٹے کے ساتھ ملاقات کا اعتراف کیا ہے اور اس پیش رفت کے بعد احتساب عدالت کے سابق جج نے اس سے متعلق اعلی حکام کو نہ ہی آگاہ کیا اور نہ ہی وہ خود عدالتی کارروائی سے الگ ہوئے۔
سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس ویڈیو کے بارے میں درخواست کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ آج ججز کے سَر شرم سے جھک گئے ہیں۔ تاہم کھوسہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ جب انہوں نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سیاستدانوں کے خلاف فیصلے دیے تھے تو تب ان کا سر شرم سے کیوں نہیں جھکا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بعد ازاں اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ارشد ملک کو احتساب عدالت کےجج کے عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا، عدالتِ عظمیٰ نے اس معاملے پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔بعد میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد قاسم خان کی جانب سے اس معاملے پر 7 رکنی انتظامی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس نے رواں برس 3 جولائی کو انکوائری رپورٹ میں مس کنڈکٹ ثابت ہونے پر ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ارشد ملک کی فراغت کا فیصلہ کرنے والوں میں لاہور ہائیکورٹ کے سات سینیئر ججوں جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
حالیہ دنوں میں کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف کے پاس جج ارشد ملک کی ایک اور ویڈیو بھی موجود ہے جو ابھی ریلیز ہونی ہے جس میں ارشد ملک نے چیف جسٹس ثاقب نثار اور پاکستانی ایجنسیوں کے لوگوں کے بھی نام لیے ہیں جن کے دباؤ پر اس نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔