کیا الیکشن کمشنر ریٹائرمنٹ سے پہلے کیس کا فیصلہ کر پائیں گے؟

وفاقی وزارت قانون کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے خلاف غیرملکی فنڈنگ کا کیس چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی ریٹائرمنٹ سے قبل نہ تو مکمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسکا فیصلہ الیکشن کمیشن کے 5 صوبائی ممبران پورے کیے بغیر مانا جا سکتا ہے لہذا حکومت کے لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار اے رضا اس برس 6 دسمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال ستمبر میں چیف الیکشن کمشنر کے مواخذے کا ناکام منصوبہ بنانے والی وزارت قانون کے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے دو ارکان سمیت موجودہ تین رکنی الیکشن کمیشن پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد ہی کرے گا جو ابھی آنا ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن ندیم قاسم کے مطابق مذکورہ کمیٹی کو اپنی سفارشات مرتب کرنے کے لئے روزانہ اجلاس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اگلی کوئی کارروائی یہ رپورٹ آنے کے بعد ہی آگے بڑھے گی۔
وزارت قانون کو یقین ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے کے باوجود یہ کیس چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے قبل نمٹایا نہیں جاسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو سکروٹنی کمیٹی اپنے قیام کے 18مہینوں میں رپورٹ مرتب نہ کرسکی وہ اگلے چند روز میں اس کام کو کیسے نمٹا سکے گی۔
تاہم دوسری طرف سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ سے قبل فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہوسکتا ہے کیونکہ تمام شہادتیں دستیاب ہیں جن پر غور کے لئے سکروٹنی کمیٹی کو مناسب وقت حاصل ہے۔
یہ سکروٹنی کمیٹی الیکشن کمیشن اور اسٹیٹ بینک کے سینئر افسران پر مشتمل ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف نے اس مقدمہ کی کارروائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ 20نومبر کو عدالت عالیہ نے پی ٹی آئی کی پٹیشن کی سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی جبکہ الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت 26 نومبر سے شروع ہونے کا امکان ہے۔
وزارت قانون کا موقف ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے 5 صوبائی اراکین میں سے بلوچستان اور سندھ کے ممبران کی تعیناتی ہونا باقی ہے لہذا تین ممبران پر مبنی الیکشن کمیشن نہ تو کسی کیس کا فیصلہ کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسے کسی فیصلے کو مانا جائے گا۔ دوسری طرف کنور محمد دلشاد کا کہنا ہے کہ قانون کے تحت الیکشن کمیشن اپنے تین ارکان کے ساتھ فعال رہ سکتا ہے، جبکہ چیف الیکشن کمشنر سمیت ارکان کی مجموعی تعداد 5ہے۔ باقی دو اسامیاں وزیراعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے درمیان عدم اتفاق کے باعث پر نہیں کی جاسکیں حالانکہ یہ کیس عدالت سے دوبارہ پا رلیمنٹ کو بھجوایا جا چکا ہے۔
صدر عارف علوی نے مذکورہ خالی اسامیوں پر سندھ سے خالد محمود صدیقی اور بلوچستان سے منیر احمد کاکڑ کا تقرر کیا لیکن پہلے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار اے رضا نے اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسے مسترد کردیا اور چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے رابطہ کر کے سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کا معاملہ حل کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button