چین کی بنی کرونا ٹیسٹنگ کٹس پر سوالیہ نشان لگ گیا

دنیا بھر میں چین کی جانب سے بنائی جانے والی کرونا ٹیسٹنگ کٹس اور طبی فیس ماسک کی کوالٹی پر سوالیہ نشان لگنے شروع ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ لاکھوں کی تعداد میں یہی ٹیسٹنگ کٹس اور فیس ماسک چین سے پاکستان میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
چین کے بعد دنیا بھر میں تیزی سے کرونا وائرس پھیلنے کے بعد طبی حکام کےلیے سب سے بڑا چیلنج اس وائرس کی تشخیص کرنا تھا۔ چنانچہ چین نے اپنی فیکٹریاں کھول کر کرونا ٹیسٹنگ کٹس، حفاظتی ماسک اور دیگر ضروری سامان بنا کر دنیا بھر میں بھیجنا شروع کردیا، تاہم بعض یورپی حکومتوں نے کورونا وائرس کی روک تھام کےلیے چین کی طرف سے بنایا گیا سازوسامان لینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسپین، ترکی اور ہالینڈ کے حکام کے مطابق ہزاروں ٹیسٹنگ کٹس اور طبی ماسکس غیرمعیاری اور ناقص ہیں۔ جبکہ ہالینڈ کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ انہوں نے چھ لاکھ ماسک واپس منگوا لیے ہیں۔ یہ سامان ایک چینی کمپنی نے 21 مارچ کو بھیجا اور اسے طبی کارکنوں کو بانٹ دیا گیا۔اب ڈچ حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ ماسکس کی فٹنگ میں مسئلہ تھا اور ان میں لگے فلٹرز ٹھیک طرح کام نہیں کر رہے تھے حالانکہ ان کا کوالٹی سرٹیفیکیٹ موجود تھا۔ بقیہ سامان کو فوراً روک لیا گیا اور اسے تقسیم نہیں کیا گیا۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ سامان استعمال میں نہیں لایا جائے گا۔
اسپین کی حکومت کو بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ایک چینی کمپنی سے ٹیسٹنگ کٹس منگوائیں۔ حکومت نے اعلان کیا کہ انہوں نے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہزاروں کٹس منگوائیں لیکن آنے والے کچھ دنوں میں انکشاف کیا کہ اُن کٹس میں سے تقریباً 60 ہزار یہ پتہ چلانے میں ناکام ہوگئیں کہ آیا مریض کو وائرس ہے یا نہیں۔
اسپین میں چینی سفارت خانے نے ٹویٹ کیا کہ ان کٹس کو بنانے والی کمپنی شینجن بائیو ایزی بائیو ٹیکنالوجی کے پاس اپنا سامان بیچنے کےلیے چینی طبی حکام کی طرف سے جاری کردہ سرکاری لائسنس نہیں تھا۔انہوں نے وضاحت کی کہ چینی حکومت اور علی بابا گروپ کی طرف سے عطیہ کیے گئے سامان میں سینجن بائیو ایزی کی مصنوعات شامل نہیں تھیں۔
ترکی نے بھی اعلان کیا کہ چینی کمپنیوں سے منگوائی گئی ٹیسٹنگ کٹس درست نتائج نہیں دے رہی تھیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ تین لاکھ 50 ہزار ٹیسٹ ٹھیک تھے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں ’غیر تصدیق شدہ ٹیسٹ کٹس‘ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ’صوبائی حکومتوں اور این ڈی ایم اے کو وارننگ دینا چاہتا ہوں، کورونا وائرس کی غیر تصدیق شدہ ٹیسٹک کٹس کی بھرمار ہو رہی ہے، اگر بیمار مریض کو ٹیسٹ صحت مند ظاہر کر دے گا تو اس کا مطلب ہے کئی جانوں کو خطرے میں ڈالنا، جب تک ڈریپ یعنی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی اپنی کٹس کی تصدیق کرتا ہے آپ امپورٹ کریں لیکن صرف تصدیق شدہ کٹس۔‘تاہم فواد چوہدری نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں غیر تصدیق شدہ کٹس کے بارے میں کہاں سے معلومات حاصل ہوئیں۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی اس ٹویٹ کے بعد این ڈی ایم اے نے ایک وضاحت جاری کی جس میں بتایا گیا کہ ان کے پاس آنے والی کورونا وائرس کی تمام ٹیسٹ کٹس چین میں پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے آئی ہیں۔ ناقص سامان کے الزامات ناقدین کی اس تنبیہ کے بعد سامنے آئے ہیں کہ چین کورونا وائرس کی عالمی وبا کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کےلیے استعمال کر سکتا ہے۔ یورپی یونین کے چیف سفیر جوزف بوریل نے گذشتہ ہفتے بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ یہاں ایک جغرافیائی سیاسی عنصر موجود ہے جس میں ’سخاوت کی سیاست‘ کے ذریعے اثر و رسوخ کی جدوجہد بھی شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چین یہ پیغام دے رہا ہے کہ امریکہ کے برعکس وہ ایک ذمہ دار اور قابلِ اعتبار ساتھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button